Topics

حضرت اُمّ ربیعۃ الرائےؒ

امام ربیعۃ الرائےؒ بہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ امام مالکؒ اور حسن بصریؒ ان کے شاگرد ہیں۔ جب امام ربیعۃ الرائےؒ شکم مادر میں تھے ان کے والد بادشاہی حکم سے لڑائیوں میں چلے گئے اور ۲۷ سال سفر میں رہے۔

ام ربیعۃ الرائےؒ ایک عبادت گزار، مستغنیٰ خاتون تھیں۔ شوہر کی عدم موجودگی میں بے مثال صبر و ایثار کا مظاہرہ کر کے بیٹے کی پرورش و تربیت کی۔ صوم و صلوٰۃ اور تہجد کی پابند تھیں۔ نبی کریمﷺ سے عشق تھا۔ ماں کی ساری کیفیات بیٹے میں منتقل ہوئیں۔ اپنے گھر کے ایک حصے کو خواتین کے درس و تدریس کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ہر ہفتے خواتین کثیر تعداد میں آتی تھیں اور آپ کا درس سنتی تھیں۔ آپ درس میں خواتین کو گھریلو معاملات اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے وعظ کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ فرمایا:

بچوں کو ڈرانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری زندگی پر محیط ہوجاتا ہے اور ایسے بچے زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برابھلا کہنے سے بچے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس شفقت و محبت اور نرمی کے برتاؤ سے اولاد کے اندر اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات نشوونما پاتے ہیں۔

ماں باپ کا وجود اولاد کے لئے آسمان کی طرح ہے۔ اپنے بچوں کو گود میں لیجئے، پیار کیجئے، شفقت سے ان کے سرپر ہاتھ پھیریئے۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان کی فطری نشوونما پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صالح اولاد ہی آپ کے بعد آپ کی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور پیغام توحید کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ مومن نیک اولاد کی آرزوئیں اس لئے کرتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے پیغام پر عمل کرے اور ساری دنیا میں یہ پیغام عام کرے۔

والدین کو چاہئے کہ دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کے عیب بیان نہ کریں۔ اور نہ کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کریں۔ بچوں کے سامنے ان کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار بچوں میں احساس کمتری پیدا کر دیتا ہے یا ان میں ضد اور غصہ بھر جاتا ہے۔ بچے کہانیاں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور انہیں جو کچھ سنایا جاتا ہے وہ ان کے حافظے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ پیار اور انسیت کے ساتھ انہیں نبیوں کے قصے، صالحین کی کہانیاں، صحابہ کرام کی زندگی کے واقعات اور مجاہدین اسلام کے کارنامے سنائیں۔ انہیں بتائیں کہ رسول اللہﷺ بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ بچوں کو دیکھ کر حضور انورﷺ کا چہرہ گلنار ہو جاتا تھا۔

بے جا لاڈ پیار سے بچے ضدی اور خود سر ہو جاتے ہیں۔ ہر جا و بے جا ضد پوری کرنے کے بجائے تحمل اور بردباری کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ بچے ضد نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ نے کرخت آواز کو ناپسند کیا ہے۔ بچوں کے ساتھ چیخیئے چلایئے نہیں کیونکہ بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گلا پھاڑ کر زور سے بولنا کوئی قابل تعریف بات ہے۔ نرمی، خوش گفتاری اور دھیمے لہجے میں ماں باپ جب بات کرتے ہیں تو بچوں کا لہجہ خود بخود نرم اور شیریں ہو جاتا ہے۔

کبھی کبھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور مساکین کو کھانا، پیسہ اور کپڑا وغیرہ دلوایئے تا کہ ان کے اندر غریبوں کے ساتھ سلوک، سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ ان کے منہ میں نوالہ دیں۔ ان سے بھی کہیئے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائیں۔

جائیداد میں لڑکی کاحصہ پوری دیانت داری اور اہتمام کے ساتھ دینا اللہ نے فرض کیا ہے اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلہ جوئی سے کام لینا اللہ کے قانون میں خیانت ہے۔

حضرت اُم ربیعۃ الرائےؒ نے اولیائے کرام کی ارواح مقدسہ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ پیغمبران کرام کی زیارت سے بھی مشرف ہوتی رہتی تھیں۔ لوگ دور دور سے مسائل کے حل، دعا اور وظیفے وغیرہ کے لئے آتے تھے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔