Topics

حضرت نفیسہ بنتِ حسنؒ

حضرت نفیسہ بنت حسنؒ تقویٰ شعار گھرانے میں پلی بڑھیں اور حسن و اخلاق کا پیکر جمال بن گئیں۔ حافظ قرآن تھیں۔ تفسیر، حدیث اور دوسرے علوم میں کمال حاصل کیا۔ زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں گزارتیں۔ ان کی شادی اسحٰق بن جعفرؒ سے ہوئی۔ آپ سے لاتعداد لوگوں نے کسب فیض حاصل کیا اور ’’نفیسۃ العلم والمعرفت‘‘ کے لقب سے مشہور ہو گئیں۔

مصر آ کر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ دن میں روزے رکھتیں اور رات کو شب بیداری کرتیں، توبہ استغفار میں مشغول رہتیں، نماز تہجد کا خاص اہتمام کرتیں، تیس حج کئے، حج کے موقع پر تلبیہ کے وقت زار و قطار روتی رہتیں اور خانہ کعبہ کے پاس نہایت خشوع و خضوع سے دعا عرض کرتیں۔

’’الٰہی تو ہی میرا آقا ہے۔ ناچیز بندی تیری رضا چاہتی ہے۔ تو مجھے ایسا کر دے کہ تیری رضا پر راضی رہوں۔‘‘

ایک مرتبہ دوسرے شہروں سے کچھ خواتین آپ سے ملنے آئیں۔ آپ سے گھر تشریف لانے کا شکریہ ادا کرنے لگیں۔ ایک عورت نے کہا آپ نے جو کام مجھے دیا تھا وہ کر دیا ہے۔ آپ نے اسے سراہا اور انہیں مزید ہدایت دیں۔ ان کے جانے کے بعد ایک شاگرد نے آپ سے کہا۔ آپ کافی عرصے سے کہیں نہیں گئیں۔ تو یہ کیسے آپ سے ملنے کا تذکرہ کر رہی تھیں۔

آپؒ نے فرمایا:

’’یہ خواتین جنات کے قبائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ کے بندوں کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔‘‘

حضرت امام شافعیؒ آپ کے ہم عصر تھے۔ اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ امام شافعیؒ نے ’’علم حدیث‘‘ سیدہ نفیسہ سے حاصل کیا اور اپنی وفات سے قبل نصیحت کی کہ میرا جنازہ سیدہ نفیسہ کے گھر کے سامنے سے گزارا جائے۔جب ان کا جنازہ گھر کے سامنے پہنچا تو سیدہ نے گھر میں ان کی نماز جنازہ پڑھی۔

آپ رمضان المبارک میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں کہ اچانک ضعف غالب ہوا نبض ڈوبنے لگی۔ سب نے اصرار کیا کہ روزہ توڑ دیں۔ فرمایا:

’’روزے کی جزا تو خود اللہ ہے۔ تیس سال سے میری یہ آرزو تھی کہ روزے کی حالت میں اپنے خالق کے حضور حاضر ہوں۔ اب یہ آرزو پوری ہو رہی ہے۔‘‘ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔ سیدہ نفیسہ کی آخری آرام گاہ قاہرہ میں ہے اور مشہد نفیسیہ کے نام سے مشہور ہے۔

حکمت و دانائی

* اللہ کی رضا میں راضی رہنا عبادت ہے۔

* روزہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔

* قرآن میں غور و فکر سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

* اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ روزہ کی جزا میں خود ہوں۔ روزہ دار کو چاہئے کہ وہ سب اہتمام کرے جس سے اللہ کی قربت نصیب ہو۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔