Topics

بی بی اُم علیؒ

بی بی ام علیؒ تیسری صدی ہجری میں بہت بڑی عارفہ گزری ہیں، مشہور ولی اللہ شیخ احمد خضرویہؒ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ ان کے والدین بہت مالدار تھے اور انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بے شمار دولت چھوڑی لیکن متوکل بیٹی نے اپنے عابد و زاہد شوہر کے ساتھ قناعت کی زندگی اختیار کی۔ آپؒ کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔ آپ فرماتی تھیں:

’’کامرانی کے مستحق وہی لوگ جو بخیلی اور تنگ دلی جیسے جذبات سے اپنے دل کو پاک رکھتے ہیں۔ اس بات کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا ہاتھ دینے والا بنایا ہے اور تم ان پوگوں میں شریک نہیں ہو جو محتاج اور نادار ہیں۔‘‘

رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

’’قیامت کے دن جب کہیں سایہ نہیں ہو گا۔ خدا اپنے اس بندے کو عرش کے نیچے رکھے گا جس نے انتہائی مخفی طریقوں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو گا، یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو گی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘

بی بی ام علیؒ حضرت بایزید بسطامیؒ اور شیخ ابو حفضؒ کی ہم عصر تھیں۔ حضرت بایزیدؒ فرمایا کرتے تھے:

’’جو شخص تصوف کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے اندر ام علیؒ جیسی صفات پیدا کرے۔‘‘
شیخ ابو حفضؒ کہتے ہیں کہ:

’’میں عورتوں کو حقیر سمجھتا تھا مگر جب ام علیؒ کی باتیں سنیں تو مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی معرفت سے جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔

حکمت و دانائی

* حاجت کا پورا نہ ہونا بے عزت ہونے سے بہتر ہے۔

* اللہ تعالیٰ نے بندوں پر انعامات کی بارش کی لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔

* جب بندے پر تکلیف یا پریشانی آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں، انہیں آرام پہنچاتے ہیں لیکن بندے یہی کہتے ہیں کہ یہ کام تو ہم نے اپنی عقل سے کیا ہے، پھر تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے اوپر پھر رحم فرماتا ہے اور بندے پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نے اپنی محنت اور عقل سے کیا ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔