Topics

بی بی رابعہ عدویہؒ

جس روز آپ پیدا ہوئیں اس دن آپ کے والد محترم نے خواب میں دیکھا کہ ہر سو نور ہی نور ہے۔ رنگ برنگ کے ستارے جھل مل جھل مل کر رہے ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عیسیٰ ؒ ایک روز حضرت رابعہ عدویہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے چہرے پر نور پھیلا ہوا تھا۔ آنکھیں پرنم تھیں اور ایک بوسیدہ بوریے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک شخص نے ان کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی جس میں عذاب قبر کا تذکرہ تھا۔ حضرت رابعہ عدویہؒ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ’’حق اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور بے ہوش ہو گئیں۔

آپ فرماتی ہیں:

کون کہتا ہے کہ دولت پرستی اور بت پرستی دو الگ الگ باتیں ہیں۔ پتھروں کو پوجنا یا سونے کو پوجنا ایک ہی بات ہے۔ بت بھی پتھروں اور مٹی سے تخلیق کئے جاتے ہیں اور سونا چاندی بھی مٹی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ سونے چاندی اور جواہرات کی محبت نے انسان کو اندھا کر دیا ہے۔ دولت کا ذخیرہ شرافت اور خاندان کا معیار بن گیا ہے۔ ہوس زر نے انسانی قدریں پامال کر دی ہیں۔

اخلاق، نجابت اور انسانی روایات سب ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ موت کے بعد زندگی پر سے یقین اٹھ گیا ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے ان کی خدمت میں ۴۰ دینار پیش کئے اور کہا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کیجئے۔ یہ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئیں۔ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا:

’’وہ خوب جانتا ہے کہ دنیا مانگتے ہوئے میں اس سے بھی شرماتی ہوں۔ حالانکہ سب چیزیں اس ہی کے قبضے میں ہیں۔‘‘

حضرت بی بی رابعہؒ کو دیدارالٰہی کا شوق بے چین و مضطرب رکھتا تھا۔ شب بیداری آپ کا معمول تھا۔ ایک دن صبح صادق کے وقت درود شریف کے تسبیح پڑھتے ہوئے انہیں ایسا محسوس ہوا کہ سارا جسم موم کی طرح پگھل رہا ہے اور وجود کی حیثیت صرف ’’نظر‘‘ کی رہ گئی ہے۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک نورانی فضا ہے اور اس فضا میں اونچائی کی جانب ایک دروازہ ہے۔ دروازے کے اندر روشنیوں کے جھماکے ہو رہے ہیں۔ حضرت رابعہ عدویہؒ کی نظر جیسے ہی دروازے کے اندر داخل ہوئی تو انہیں بے شمار کہکشاؤں کے راستے نظر آئے۔ کچھ لوگوں نے انہیں کہکشاؤں میں داخل ہونے سے روکا تو فرشتوں سے کہا کہ اسے جانے دو۔ یہ رابعہ عدویہؒ ہیں۔

آپؒ اکثر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر نہایت شیریں آواز میں حضور پاکًﷺ کی شان میں قصیدہ پڑھا کرتی تھیں۔ ا س وقت لگتا تھا کہ کائنات کی ہر شئے وجد میں ہے۔ ہر درخت، ہر پودا اور ہر پرندہ خاموشی سے قصیدہ سنا کرتا تھا۔

حکمت و دانائی

* دنیا مانگتے ہوئے مجھے اللہ سے بھی شرم آتی ہے۔

* اللہ بے حساب رزق دینے والا ہے۔ پیدا ہونے سے پہلے وہ تمام وسائل مہیا کر دیتا ہے۔

* اللہ سے محبت صرف اللہ کے لئے کرو۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔