Topics

لل ماجیؒ

آٹھویں صدی ہجری میں وادی کشمیر میں للہ عارفہ ایک عجیب و غریب شخصیت گزری ہیں۔ ہندو کہتے ہیں کہ یہ خاتون ہندو تھیں اور ان کا نام لل ایشوری تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ مسلمان تھیں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کشمیر کے مسلمان ان کو احتراماً’’لل ماجی‘‘ کہتے ہیں۔ (’’لل ماجی‘‘ کا مطلب ہے ’’بزرگ خاتون‘‘)

صوفیائے کشمیر کے تذکروں میں ان کو مسلم اولیاء اللہ میں شمار کیا گیا ہے عام طور پر لل ہی کے نام سے مشہور ہیں جو کشمیری زبان میں پیار کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔

لل عارفہ کشمیر کے ایک گاؤں پنڈریتھن(جو سری نگر کے قریب ہے) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین متوسط درجہ کے ہندو زمیندار تھے، انہوں نے نومولود بچی کا نام لل ایشوری رکھا، وہ ابھی کمسن ہی تھیں کہ ان کے والدین نے ان کی شادی ایک برہمن زادے سے کر دی، وہ گھر کا سارا کام کاج بڑی محنت سے کرتی تھیں لیکن ان کی ساس ان پر بہت ظلم ڈھاتی تھی اور اپنے بیٹے سے بہو کو پٹواتی تھی۔ دکھ سہتے سہتے وہ اکثر گم سم رہنے لگیں اور نفس کشی میں لذت محسوس کرنے لگیں ان کی لو اللہ سے لگ گئی اور خرق عادات کا ظہور ہونے لگا، لوگوں نے انہیں دیوی کا درجہ دے دیا اور دور دور سے عورتیں ان کے درشن کو آنے لگیں، ہجوم سے گھبرا کر آخر ایک دن وہ گھر سے نکل گئیں اور دشت نوردی اختیار کر لی، جنگلوں، ویرانوں کو اٹھکانا بنا لیا۔

مشہور ولی اللہ سید سمنانی تانیؒ جب کشمیر میں آئے تو لل ان کے دست حق پرست پر مسلمان ہو گئیں اور پھر ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر وقت کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں گزار دیا۔

ایک روایت کے مطابق اس سے پہلے سلسلہ سہروردیہ کے شہرہ آفاق بزرگ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کشمیر تشریف لائے تو لل نے بھی کسب فیض کیا، مشہور ولی اللہ اور مبلغ اسلام امیر کبیر سید علی ہمدانی کشمیر تشریف لائے تو ان سے بھی فیوض و برکات کی سعادت نصیب ہوئی۔

وہ اپنے بیگانوں سب کو برابر سمجھتی تھیں اور رشتۂ انسانیت کو سب سے افضل قرار دیتی تھیں، رنگ و نسل، وطن اور رسوم و رواج سے آزاد تھیں، بت پرستی کی شدید مخالف تھیں اور فلسفہ ہمہ اوست (وحدت الوجود) کی زبردست مبلغ تھیں۔

کشمیر کے نامور صوفی شیخ نور الدین ولی لل عارفہ کے رضاعی فرزند اور عقیدت مند تھے۔ اپنی ایک مناجات میں انہوں نے ’’لل‘‘ کو اولیاء اللہ خواتین میں شمار کیا ہے اور خدا سے دعا کی ہے کہ وہ انہیں لل ماجی جیسا بنا دے۔

لل کشمیری زبان کی خوش گو شاعرہ بھی تھیں۔ کشمیر کے اہل ذوق حضرات نے ان کو کشمیری شاعری کا بانی بھی قرار دیا۔ ان کی شاعری کے مجموے چھپ چکے ہیں۔

ایک بار لل کسی جنگل میں سجدہ ریز تھیں کہ ایک بھوکے شیر نے انہیں دیکھا اور ان پر جھپٹا لیکن جب قریب آیا تو اس کی درندگی ختم ہو گئی اور ’’لل‘‘ کے پاس بیٹھ کر دم ہلانے لگا۔

حکمت و دانائی

* عورت اور مرد کا وجود بذات خود کچھ نہیں وہ صرف روح کے مظاہر ہیں۔

* کامیابی بے لوث اور بہادر لوگوں کے لئے ہے۔

* چوب خشک اور شمع کا جلنا یکساں نہیں۔

* مکھی کو پروانے کا عشق نصیب نہیں ہوتا۔

* جب میں نے فکر و آلام کی دنیا کو خیرباد کہا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں دیکھا۔

ایک بزرگ کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز پاک ہے لوگ اس رمز کو سمجھتے نہیں تھے اس لئے ان کو طرح طرح سے پریشان کرتے تھے، ایک دولت مند شخص نے دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں معززین شہر کو مدعو کیا، دسترخوان بچھا کر برتنوں میں کھانا رکھ کر اوپر پلیٹ ڈھک دی، ان بزرگ کے سامنے پلیٹ میں ’’پاخانہ ‘‘ رکھ دیا۔ جب مہمان جمع ہو گئے تو میزبان نے کہا بسم اللہ کھانا شروع کریں۔

بزرگ نے پلیٹ کو ذرا ہٹایا تو اس میں فضلہ دیکھ کر پلیٹ ڈھک کر کھڑے ہو گئے اور گھر میں موجود سوئمنگ پول میں کود گئے۔

تھوڑی دیر میں تالاب میں سے ایک خنزیر نکلا اور پلیٹ میں سے فضلہ کھا کر دوبارہ سوئمنگ پول میں کود گیا اور حضرت تالاب میں سے نکل کر دسترخوان پر آ بیٹھے۔

میزبان نے شرمندگی سے پوچھا:

’’حضرت یہ کیا ماجرا ہے۔ آپ تو کہتے تھے کہ ہر چیز پاک ہے۔‘‘

بزرگ نے فرمایا:

’’جس کے لئے کھانا پاک تھا وہ کھا گیا۔‘‘

حضرت ’’لل‘‘ کی عارفانہ شاعری

’’تحفہ‘‘
تو آسمان ہے

تو زمین ہے

تو ہوا ہے

تو دن اور رات ہے

تو چاند ہے

تو پھول ہے

ہر شئے تجھی سے ہے

میں تیری عبادت کے لئے کون سا تحفہ لاؤں۔

’’منزل‘‘
خدا تیرے دل میں قیام فرما ہے

اسے دیکھ اور پہچان

تیرتھ یاتراؤں میں رہنے

گنگا میں نہانے، ٹونے ٹوٹکے کرنے سے

وہ نہیں ملتا۔

’’جاگو‘‘
کچھ ایسے ہیں جو سوئے ہوئے ہیں

لیکن اصل میں جاگ رہے ہیں

کچھ لوگ ایسے ہیں جو جاگ رہے ہیں

لیکن اصل میں سوئے ہوئے ہیں

کوئی نہانے کے باوجود ناپاک رہتا ہے

اور کوئی نہائے بغیر پاک رہتا ہے۔ 

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔