Topics

بی اماں صاحبہؒ

بی اماں صاحبہؒ تاج اولیاء بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی فیض یافتہ تھیں۔ آپؒ کے والد مسجد کے پیش امام تھے، ان کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی۔ ان کی بیوی نے منت مانی کہ اگر اولاد زندہ رہ گئی تو وہ اسے تربیت کے لئے بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں پیش کر دیں گی۔ بی اماںؒ زندہ رہیں، کم عمری میں انہیں بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو بابا صاحبؒ نے آپؒ کی پرورش اپنے ماموں عبدالرحمان صاحب کے سپرد کی۔ اماں صاحبہؒ بڑی ہوئیں تو ان کے رشتہ دار واپس چاندہ لے گئے اور شادی کر دی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد اماں صاحبہؒ پر جذب کی کیفیت طاری رہنے لگی۔ ان کی حالت دیکھتے ہوئے بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں دوبارہ پیش کیا گیا کچھ عرصہ بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں رہیں تو جذب ختم ہو گیا۔

بی اماںؒ صاحبہ نے راجورہ میں قیام کیا اور اسی مقام سے آپؒ کا فیض جاری ہوا۔

ایک بار سلسلہ چشتیہ کے بزرگ جو اماں صاحبہؒ سے فیض یافتہ تھے۔ بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں آئے اور اپنا ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا:

’’میں نے دیکھا نور کا ایک ہالہ ہے جس کے درمیان بی اماں صاحبہؒ استغراق کے عالم میں سر جھکائے بیٹھی ہیں اور ان کی پیشانی سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔‘‘

بابا تاج الدینؒ نے ارشاد فرمایا:

’’بی اماںؒ پر اللہ کا خصوصی کرم ہے، ہم اس مائی کو عبدالرحمٰن کا لقب دیتے ہیں۔ اس کے ذریعے رحمانی طرز فکر کا فیض جاری ہو گا۔‘‘
ایک بار اماں صاحبہؒ نے بلند آواز میں فرمایا:

’’میں ہوں تیری بہن، میں آ رہی ہوں۔‘‘

یہ جملے آپ نے تین بار دہرائے اور جنگل کی طرف چل پڑیں۔ آپؒ کو جاتا دیکھ کر عقیدت مند بھی ساتھ ہو گئے۔ رات کا وقت تھا ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ شہر کے باہر ایک جگہ آپؒ لمحہ بھر کے لئے رکیں اور پھر ایک طرف چلنے لگیں۔ ایک جگہ پہنچ کر رک گئیں جہاں ایک کوڑھ زدہ مریض پڑا تھا۔ پھوڑوں سے ناقابل برداشت بواٹھ رہی تھی۔ رشتہ دار تنگ آ کر اسے ویرانے میں چھوڑ آئے تھے۔ بی اماں صاحبہؒ نے مریض کے قریب پہنچ کر کہا:

’’میں آ گئی ہوں تیری بہن۔ تو میرا بھائی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر آپؒ نے اپنا دوپٹہ اس کے اوپر ڈال دیا اور کہا کہ اسے اتارنا مت۔ کچھ دیر کے بعد مریض سو گیا۔ اماں صاحبہؒ اس کے سرہانے بیٹھی رہیں، حضرت فرید الدین تاجیؒ جو اس وقت وہاں موجود تھے کہتے ہیں کہ

’’صبح سویرے اماں جیؒ نے اپنا دوپٹہ کھینچا تو ہم نے دیکھا کہ

کوڑھ کا مرض ختم ہو چکا تھا۔‘‘

بی اماں صاحبہؒ کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ اس لئے آپ کے عقیدت مند نایاب پھولوں کے گلدستے پیش کرتے تھے۔ ان گلدستوں کو اماں صاحبہؒ نہایت محبت سے ہاتھ میں لے کر پھولوں کو پیار کرتی تھیں جیسے کہ کوئی ماں بچہ کو پیار کرتی ہے۔ کمرے میں رکھے ہوئے گلدستے کئی مہینوں تک ترو تازہ رہتے تھے اور ان سے بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی تھی۔ اس کی وجہ دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا:
’’میری توجہ حیات بن کر ان کے اندر گردش کرتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ پھول خوش ہو کر اتنی کلکاریاں مارتے ہیں کہ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ بس اب خاموش ہو جاؤ۔‘‘

حکمت و دانائی

* دوسروں کے کام آنا اور ان کی مدد کرنا انسانیت کی معراج ہے۔

* اللہ کی مخلوق کی خدمت کا سچا اور مخلصانہ جذبہ انسان کے اندر محبت، اخوت اور مساوات کو جنم دیتا ہے۔

* جھکنے میں عظمت ہے۔

* سکون کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر استغنا ہو۔

* تسخیر کائنات اور جنت کی زندگی نوع انسانی کا ورثہ ہے۔

* فعل و عمل میں اپنی ذات کو اولیت دینے سے جو خول وجود میں آتا ہے وہ انسان کا رشتہ لازمانیت اور لامکانیت سے منقطع کر دیتا ہے۔
* قوت ارادی سے دنیا انسان کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے۔

* مردہ آدمی اکڑتا ہے زندہ آدمی جھکتا ہے۔

* جھکنا عبادت ہے اور اکڑنا موت ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔