Topics

بی بی میراں ماںؒ

حضرت میراں ماںؒ کی آخری آرام گاہ کراچی میں ہے۔ آپ کا آبائی وطن لاڑکانہ ہے۔ آپ نے سلسلہ قادریہ سے فیض پایا۔ بی بی میراں ماںؒ جب حج کے ارادے سے کراچی تشریف لائیں تو آپ کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ آپ نے فرمایا:

’’دیکھو! میرے چلے جانے کے بعد تم لوگ الگ الگ نہ ہو جانا اور میں نے جو کچھ تم لوگوں کو سکھایا اور بتایا ہے اسے ہمیشہ دوسروں تک پہنچاتے رہنا، قانون کی پاسداری کرو، حاکم اپنے فداکاروں اور اپنی اطاعت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اگر تم اللہ کے پھیلائے ہوئے وسائل کو صبر و شکر کے ساتھ خوش ہو کر استعمال کرو گے تو اللہ خوش ہو گا اس نے یہ سارے وسائل تمہارے ہی لئے پیدا کئے ہیں۔

رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو، بے جا خرچ نہ کرو کہ دولت اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور تم جانتے ہو کہ شیطان اللہ کا باغی ہے، تم کنجوس نہ بنو اور نہ اتنے فضول خرچ بنو کہ کل کے دن نادم ہونا پڑے۔ وعدوں کو پورا کرو۔ تول میں ترازو صحیح رکھو۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو کہ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑ کے برابر ہو سکتے ہو۔

ایک صاحب انیس الرحمٰن بی بی میراں کے مزار پر اکثر حاضر ہوتے تھے۔ ایک بار ان کے نومولود بچے کے پیر میں پھوڑا نکل آیا، انیس الرحمٰن بچے کی تکلیف سے سخت پریشان تھے۔ ایک رات جب مزار پر حاضر ہوئے تو بی بی صاحبہ کی خدمت میں مسئلہ پیش کیا۔ نیند کا غلبہ ہوا تو دیکھا کہ میراں ماں صاحبہ خواب میں تشریف لائیں اور کہا:

’’سوکوؤں کو کھانا کھلا دے۔‘‘

انیس الرحمٰن صاحب نے بازار سے بیس سیر گوشت خرید کر کوؤں کے لئے ڈال دیا اللہ تعالیٰ نے بچے کو شفا عطافرمائی۔

حکمت و دانائی

* راضی بہ رضا رہنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہے۔

* منافق اللہ کا دوست نہیں ہوتا۔

* تقویٰ اور تواضع اعلیٰ ترین صفات ہیں۔

* سیرت نبیﷺ پر ثابت قدم رہنے سے ایمان و ایقان مضبوط ہوتا ہے۔

* توکل انسان کو غلامی سے آزاد کر دیتا ہے۔

* ہر ظاہر کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ اس کا باطن بھی ہے۔

* جو کوشش کرتا ہے وہ پاتا ہے۔

* حضرت علیؓ نے فرمایا ہے:

مومن کسی کا حق مارتا نہیں اور اپنا حق چھوڑتا نہیں ہے۔

* بزرگوں کی غلطیاں ڈھونڈنا خود بڑی غلطی ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔