Topics
لوح محفوظ سے ایک نور آتا ہے جو پو ری کائنات میں پھیلتا ہے ۔اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہو تی ہیں جو کا ئنات کے ذرے ذرے کو ملتی ہیں ۔ ان اطلاعات میں چکھنا ،سونگھنا، سننا ،دیکھنا ، محسوس کر نا خیال کر نا وہم و گمان وغیرہ اورزندگی کا ہر شعبہ ،ہر حر کت ، ہر کیفیت کامل طر زوں کے ساتھ موجود ہو تی ہے ان کو صحیح حالت میں وصول کر نے کا طر یقہ صرف ایک ہے ۔ انسان ہر معاملے میں ہر حالت میں کامل استغناء رکھتا ہو مسخ کر نے والی اس کی اپنی مصلحتیں ہو تی ہیں ۔جہاں مصلحت نہیں ہے وہاں استغناء ہے ۔غیر جانب داری ہے اور اللہ کا شعار ہے ۔رو حانیت کے راستے پر سفر کر نے والے سالکین کو یہ بات یاد رکھنی چا ہئے کی رو حانیت میں اللہ کے ساتھ کو ئی دو سرا مقصد ،کو ئی دوسری غایت شریک کر نا کفر ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔