Topics
ہم با حیثیت بزرگ بار بار اعلان کر تے ہیں کہ نو جوان نسل کے ذہنوں سے بزرگوں کا احترام اٹھ گیا ہے ا ن کے اندر وہ اخوت و حیاء نہیں رہی جس کے اوپر مثالی معاشرہ تعمیر کیا جا تا ہے ۔خدا را اپنے گر یبان میں منہ ڈالئے یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے قول و فعل میں کتنا تضاد واقع ہو چکا ہے ۔اس کے با جود ہم اپنا اختیار استعمال کر کے اس منا فقانہ زندگی کو بدل سکتے ہیں ،ہم ہا تھ پر ہا تھ رکھ کر بیٹھے ہیں ۔ہم جو کچھ خودنہیں کر تے اس کی توقع اپنی اولاد سے کیوں کر تے ہیں ۔آج اگر ایک باپ جھوٹ کی ملمع شدہ زندگی میں ہے تو وہ اولاد سے کیوں کر توقع کر سکتا ہے کہ وہ سچی اور حق آشنا زندگی گزارے گا ۔بچے ماں کے پیٹ سے قاتل ،چور ،ذخیرہ اندوز ،منافق ،اسمگلرپیدا نہیں ہو تے ۔انہوں نے اپنے بزرگوں کو جو کچھ کر تے دیکھا ہے تر قی دے کر اسے فن بنا دیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔