Topics
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت قانون قدرت کے تحت فعال اور متحرک ہے ۔ہر صفت اپنے اندر طا قت اور زندگی رکھتی ہے۔ جب ہم کسی اسم کا ورد کر تے ہیں تو اسم کی طا قت تا ثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔اگر مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں اور پُر خطا طرزِ عمل کا جا ئزہ لینا چا ہئے ۔ ہم یہ جا نتے ہیں کہ علاج میں دوا کے ساتھ پر ہیز کر نا ضروری ہے اور بد پرہیزی سے دوا غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ کوتاہیوں اور خطاؤں کے مرض میں جو پرہیز ضروری ہےوہ یہ ہے۔حلال رو زی کا حصول ،جھوٹ سے نفرت ،سچ سے محبت ،اللہ کی مخلوق سے ہمدردی ،ظا ہر اور با طن میں یکسانیت ،منا فقت سے دل بیزاری ،فساد اور شر سے احتراز ،غرور تکبر سے اجتناب ،کو ئی منا فق ،سخت دل ،اللہ کی مخلوق کو کمتر جا ننے والا اور خود کو دو سروں سے بر تر سمجھنے والا بندہ اسمائے الٰہیہ کے خواص سے فا ئدہ نہیں حاصل کر سکتا ۔کسی اسم کے ورد کر نے سے پہلے مذکورہ بالا صلا حیتوں اور اوصاف کو اپنے اندر پید ا کرنا ضروری ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔