Topics

کھربوں دنیائیں

قلندر شعور ہماری رہنما ئی کر تا ہے کہ ہم کا ئناتی تخلیقی فا رمولوں کے تحت اپنے اندر ہر قسم کی غیرمرئی( INVISIBLE ) صلا حیتوں کو اپنے ارداے اور اختیار سے متحرک کر سکتے ہیں ۔ایک آدمی جب اپنے اندر دور کر نے والی بجلی یا نسمہ سے واقف ہو جا تا ہے تو وہ بجلی کے بہا ؤ کو روک بھی سکتا ہے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ والٹیج کا ذخیرہ بھی کر سکتا ہےاور اس ذخیرے سے ماورا ئی دنیا میں بغیر کسی وسیلے کے پر واز بھی کر سکتا ہے ۔الیکڑیسٹی کے ذخیرے کے بعد اس کے اندر ایسی سکت پیدا ہو جا تی ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے آسمان اور زمین کے کناروں سے با ہر نکل جا تا ہے ۔اس کی آنکھوں کے سامنے زمین کی کہکشاں میں بے شمار زمینیں آجا تی ہیں ۔جس طر ح وہ اپنی زمین پر آباد اللہ کی مخلوق کو دیکھتا ہے اسی طرح کھر بوں دنیا ؤں کا بھی مشاہدہ کر تا ہے ۔جس طر ح ایک فلم سینکڑوں ہزاروں اسکرین پر دیکھی جا سکتی ہے اسی طر ح کائنات کی تمثیل لوحِ محفوظ سے ڈسپلے (DISPLAY)ہو رہی ہے ۔کائنات میں موجود ہر زمین ایک اسکرین ہے ۔لا شعور بیدار ہو جا تا ہے تو یہ ساری کائنات ایک فلم اور کائنات میں کھربوں زمینیں اسکرین نظر آتی ہیں جو کچھ اس زمین پر ہو رہا ہے بالکل اسی طر ح کائنات میں موجود دو سری تمام زمینوں پر بھی یہ نظام جا ری و ساری ہے۔ 


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔