Topics
آدم کو مٹی سے بنا یا ہے تو ہر آدمی مٹی سے بنا ہے اور ہم مٹی کو مٹی میں دفن کر دیتے ہیں ۔ایک حسین مورتی جس کے حسن پر سب ہی لوگ جان دیتے ہیں اور والہ وشیدہ بنے رہتے ہیں اصل میں مٹی کے ذرات سے مر کب ہے ۔محبت کی شراب پینے والے جس پیا لے میں شراب پیتے ہیں وہ پیا لہ اسی مٹی سے بنتا ہے ۔ قدرت کی کر شمہ سازی بھی کیا خوب ہے کہ ایک ہی مٹی سے مختلف شکلیں بناتی رہتی ہے اور پھر اسی مٹی میں ملا کر مٹا دیتی ہے ۔ اور پھر بنا دیتی ہے ۔تخلیق کے اس عمل میں واضح نشانیاں ہیں جو فی الواقع خالق کائنات کو جاننا پہچانا چا ہتے ہیں آدم کی افتاد طبع بھی عجیب ہے کہ اس نے چمک دمک رکھنے والی شراب کی نہروں کو جنت میں ویران چھو ڑا قسم قسم کے پھولوں کو اور با غوں میں پر ندوں کی چہکار کوبھی خیرباد کہہ دیا ۔ آدم کسی ایک بات یا کسی ایک چیز پر قانع نہیں رہتا ۔اس کا جنت میں رہتے رہتے جب جی گھبرانے لگا تو اسے چھو ڑ کر زمین پر آگیا اس کے مزاج میں ہر آن ،ہر لمحہ تغیر اور تبدل ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔