Topics
ایک انسان دو سرے انسان میں اپنے ادارے اور اختیار سے جذب ہو جا تا ہے لیکن سنٹی میٹر کے ہزاویں حصے کے برابر خلا نہ ہو نے کے باجود دونوں انسان الگ الگ رہتے ہیں ۔خود کو الگ الگ محسوس کر تے ہیں قانون یہ بنا کہ مقداروں میں تعین ہی انفرا دیت قائم کر تا ہے ۔کو ئی انسان اس تخلیقی قانون کو توڑ نہیں سکتا ۔جس طر ح ایک انسان ادراک رکھتا ہے اسی طر ح ما ل و زر اور دو لت بھی ادراک رکھتی ہے ۔ جب کو ئی انسان دو لت کے تشخص سے فرار اختیار کر تا ہے تو مقداروں کے قانون کے مطا بق توازن برقرار رکھنے کے لئے دو لت اس کے پیچھے بھا گتی ہے اور جب کو ئی انسان دو لت کے پیچھے بھا گتا ہے تو دو لت اس کے ساتھ بے وفا ئی کر تی ہے اور عذاب بن کر اس کے اوپر مسلط ہو جا تی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔