Topics
مرا قبے کے ذریعے انسان عالم با طن کی دنیا سے رو شنا س ہو تا ہے ۔جب سا لک غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے تو جس طر ح وہ عالم نا سوت یا اس دنیا میں زندگی گزارتا ہے اور زندگی کے تقاضوں کو پو را کر تا ہے اسی طر ح وہ غیب کی دنیا میں نظام شمسی اور بے شمار افلاک کو دیکھتا ہے ۔فر شتوں سے متعا رف ہو تا ہے اس کے سامنے وہ تمام حقا ئق آجا تے ہیں جن حقا ئق پر یہ کا ئنات تخلیق ہو ئی ہے ۔وہ یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ کا ئنات کی ساخت میں کس قسم کی رو شنیاں بر سر عمل ہیں۔ان رو شنیوں کا منبع (SOURCE )کیا ہے ۔یہ رو شنیا ں کس طر ح تخلیق ہو رہی ہے افر اد کا ئنات میں کس طر ح تقسیم ہو رہی ہیں اور رو شنیوں کی مقداروں کے ردوبدل سے کا ئنا ت کے نقوش کس طر ح بن رہے ہیں ۔رو حانی آدمی کی آنکھ یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ رو شنیوں کا منبع انوار ہیں۔ پھر اس پر وہ تجلی بھی منکشف ہو جا تی ہے جو رو شنیوں کو سنبھا لنے والے انوار کی اصل ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔