Topics

رُوحانی بغدادی قاعدہ


کسی علم کو سیکھنے کے لئے اس کے الف ب سے واقف ہو نا ضروری ہے۔ کو ئی آدمی جب تک الف ب کا قاعدہ نہیں پڑھ لیتا ، پڑھنا لکھنا نہیں سیکھ سکتا ۔

جس طر ح ظا ہری علوم سیکھنے کے لئے قاعدہ پڑھنا ضروری ہے، اسی طر ح رُو حانی  علوم سیکھنے کے لئے بھی قاعدہ پڑھنا ضروری ہے ۔ فر ق صرف یہ ہے کہ علوم ظا ہری سیکھنے کے لئے الف ب پڑھنا ضروری ہے اور علوم با طنی سیکھنے کے لئے طر ز فکر کو تبدیل کر نا ضروری ہے ۔ رو حانیت سیکھنے کے لئے علوم ظا ہری کی طر ح بغدادی قاعدہ اب تک نہیں چھپا ۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو قاعدوں اور ضا بطوں پر تو مشتمل ہے مگرعلوم ظا ہری کی طر ح پڑھنے ،رٹنے یا قلم سے کا غذ پر مشق کر نے سے حاصل نہیں ہو تا ۔ اس کی آسان مثال بچے کے اندر ماں کی زبان کا منتقل ہو نا ہے ۔ کو ئی ماں ما دری زبان سکھا نے کے لئے بچے کو الف ب نہیں پڑھا تی ۔ لیکن بچہ وہی زبان بولتا ہے جو اس کی ماں بو لتی ہے۔ بچے کے اندر ازخود وہ طر ز فکر منتقل ہو تی رہتی ہے جو بچے کے ماں باپ کی طر ز فکر ہے ۔ا س کی مثال یہ ہے کہ بکری کا بچہ گھاس کھا تا ہے ، گوشت نہیں کھا تا ۔شیر کا بچہ گو شت کھا تا ہے ، گھاس نہیں کھا تا ۔ کبو تر کا بچہ نہ گھاس کھا تا ہے، نہ گو شت کھا تا ہے ۔ دانہ چگتا ہے ۔ آدمی کا بچہ گو شت بھی کھا تا ہے ۔ مٹی بھی کھا تا ہے ، جڑ بھی کھا تا ہے ، لکڑی بھی کھا تا ہے ، پتھر بھی کھا تا ہے۔ آدمی کا بچہ یہ سب چیزیں اس لئے کھا تا ہے اس کے ماں باپ کی غذا میں یہ سب چیزیں شامل ہیں ۔ آدمی کی طر ح اگر شیر بھی یہ سب چیزیں کھا تا تو اس کے بچوں کی بھی یہی خوراک ہو تی ۔ کھا نا ، پینا ، شکا ر کر نا اور زند گی کے دو سرے عوامل بچے کے اندر ماں باپ سے منتقل ہو تے ہیں ۔یعنی ان سب چیزوں کو سیکھنے کے لئے کسی ابتدا ئی کتاب یا قاعدہ کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ یہ بات بھی تفکر طلب ہے کہ ہر مخلوق زبان رکھتی ہے اور ایک دو سرے کو اپنی زبان میں جذبات و احساسات سے مطلع کر تی ہے ۔ مر غی کو جب یہ خطرہ لا حق ہو تا ہے کہ اس کے بچے چیل اٹھا لے جا ئے گی تو وہ ایک مخصوص آواز نکا لتی ہے اور سارے بچے اس کے پروں میں سمٹ آتے ہیں ۔ علیٰ ہذ القیاس اس طر ح ہر نوع اپنی اپنی زبان جا نتی ہے اور یہ ز بان اس کی نسل میں رائج ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ گفتگو کا ایک انداز اور بھی ہے جس سے ہر شخص کسی نہ کسی وقت دو چار ہو تا ہے اور ہر شخص اس اندازِ گفتگو سے واقف ہے، وہ ہے اشاروں کی زبان۔ ایک باپ اپنے بچے سے کو ئی بات منوانا چا ہتا ہے اور آنکھوں کے ایک مخصوص انداز سے بچے کی طر ف دیکھتا ہے، بچہ یہ بات سمجھ لیتا ہے ۔ماں بچے کے رونے سے یہ بات سمجھ جا تی ہے کہ اب بچہ بھوک سے رو رہا ہے یا وہ تکلیف میں مبتلا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔

آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھے ہیں۔ وہاں اس قسم کا ماحول ہے یا اس قسم کی گفتگو ہو رہی ہے کہ جس کے بارے میں آپ کا ذہن یہ ہے کہ بچے ا س گفتگو کو نہ سنیں یا بچے کا اس ماحول میں ہو نا مناسب نہیں ہے ۔جیسے ہی بچہ کمرے میں د اخل ہو تا ہے آپ اس کی طرف دیکھتے ہیں ۔ ذہن میں یہ بات ہو تی ہے کہ تم یہاں نہ آؤ ۔ آپ گر دن ہلا تے ہیں۔ نہ بو لتے ہیں اور نہ کو ئی واضح اشارہ کر تے ہیں ۔لیکن آپ کے دماغ میں جو موجود خیال سے بچہ واقف ہو جاتا ہے بچہ پو ری طر ح آپ کی بات سمجھ کر کمرے سے چلا جا تا ہے اور پھر واپس نہیں آتا ۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ آپ کا کو ئی عزیز دو ر رہتا ہے اور وہ کسی پر یشانی میں مبتلا ہو اور آپ پر یشان ہو جا تے ہیں اور یہ ساری پر یشانیاں حقیقت بن کے آپ کے سامنے آجا تی ہیں ۔کبھی یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ فلاں دوست سے ملا قات نہیں ہو ئی ۔  آپ با ہر نکلتے ہیں اور دو ست سے ملا قات ہو جا تی ہے ۔  بیٹھے بیٹھے ایک دم کسی حادثے سے متعلق ایک فلم متحرک ہو جاتی ہے اس فلم کے متحرک ہو نے سے دماغ پر اتنا وزن اور دبا ؤ پڑتا ہے کہ اعصاب ٹوٹتے ہو ئے محسوس ہو تے ہیں ۔ آدمی نڈھال ہو جا تا ہے ۔ایسا بھی ہو تا ہے کہ بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی سبب کے دماغ کے اندر پھلجھڑیاں سی پھوٹنے لگتی ہیں اور آدمی خوش ہو جا تا ہے ۔ بظاہر خوش ہو نے کی کو ئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ لیکن خوشی کے تا ثر کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ 


Topics


Qalandar Shaoor

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔

*ایک کتاب المبین 

*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ 

*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے

*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام 

*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔ 

یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود  ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔