Topics
ان مندرجات سے ایک
ہی بات سامنے آتی ہے کہ انسان کے اندر کو ئی کمپیو ٹر نصب ہے جو اس کی زندگی کے
مختلف مراحل سے گزرنے کی ہدا یت دے رہا ہے ۔ کبھی وہ ایسی ہدا یت دیتا ہے کہ آدمی
رنجیدہ ہو جاتا ہے اور کبھی ایسی اطلاع
دیتا ہے کہ وہ خوش ہو جا تا ہے۔ کبھی اسے پا نی پینے کی اطلاع دی جا تی ہے ۔اور
کبھی کھا نا کھا نے کی ۔ کبھی کمپیو ٹر اسے اطلاع دیتا ہے کہ اب اعصاب میں مزید
عمل کر نے کی صلا حیت موجود نہیں رہی ۔ سو جا ؤ ۔ پھر یہ اطلا ع ملتی ہے کہ
اب مز ید چا ر پا ئی پر لیٹے رہنے اور شعور ی حوا س میں داخل نہ ہو نے سے اعصاب
مضمحل ہو جا ئیں گے اور آدمی اس اطلاع کو قبول کر کے بیدار ہو جا تا ہے ۔
جب تک دماغ کے اندر نصب شدہ کمپیو ٹر کو ئی اطلاع نہیں دیتا آدمی یا کو ئی بھی ذی رُو
ح کو ئی کام نہیں کر سکتا۔ اس میں انسان ، بھیڑ ،
بکر ی کسی جا نور، نباتات یا جمادا ت کی کو ئی قید نہیں ہے۔ سب کے اندر یہ اطلاع
دینے والی مشین نصب ہے۔ یہ مشین وہی اطلاع فراہم کر تی ہے جس کی ضرورت ہو تی ہے ۔
یہ کمپیو ٹر آدمی
کی رُو ح ہے ۔ موجودات میں جتنی ذی رُو ح اور
غیر ذی رُو ح ہیں ان سب میں ایک ہی طر ح کمپیو ٹر نصب ہے ۔ کو
ئی مخلوق اس کمپیو ٹر کے علم سے واقف نہیں ہے ۔ اللہ نے صرف انسان کو اس کمپیو ٹر
کا علم سکھا یا ہے ۔ یہی وہ علم ہے جس کو آدم اور فرشتوں کے قصے میں بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ فر ماتا ہے ۔"میں
زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہو ں ۔ فرشتوں نے کہا ۔" یہ تو
فساد بر پا کرے گا اور ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کے لئے کافی ہیں " اللہ نے
فرمایا ۔’’ہم جو جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے ۔‘‘ فرشتوں کو یہ بات سمجھانے کے لئے آدم کو علم
الاسماء سکھا دیا ۔اور آدم سے
کہا۔"اس علم کو ظاہر کرو۔" اور
فرشتوں سے کہا ۔’’اگر تم سچے ہو تو تم اس علم کے بارےمیں بتا ؤ ۔‘‘ فر شتوں نے عرض
کیا ۔" ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ۔"
آدم کی اولاد آدم
ہے اور آدم کی اولاد بحیثیت آدم کے اس بات کا مشاہدہ کر تی ہے جن مشاہدات سے آدم
گزرا ہے ۔ اگر کو ئی آدم زاد اس بات کا مشاہدہ نہ کر سکے۔ جس حالت کا مشاہدہ آدم
نے کیا یعنی خود کو فرشتوں کا مسجود دیکھنا ، اللہ اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہو
نا ، اللہ کا یہ کہنا کہ ہم نے آدم کو اپنی صفات کا علم سکھادیا اور فرشتوں کا یہ
کہنا کہ ہم صرف اس حد تک واقف ہیں جس حد تک آپ نے ہمیں علم عطا کر دیا ہے، تو وہ
ہر گز آدم کی اولاد کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ یہ حیثیت اس آدم کی نہیں ہے جس آدم
کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ یہ میرا نائب اور خلیفہ ہے ۔
اس گفتگو کا اجمال
یہ ہوا کہ آدم زاد اگر ازل میں دی گئی نیابت سے واقف نہیں ہے اور ان واقعات کو اگر
اس نے دنیادی زندگی میں نہیں دیکھا تو وہ آدم کی باسعادت اولاد نہیں ہے ۔ محض شکل
و صورت کی بنا پر اس کو آدم زاد کہہ دیا جا ئے تو اس کو نا خلف اولادسے زیادہ
اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے کہ اگر کو ئی بندہ اللہ کے اسماء کا علم نہیں جا
نتا تو وہ اللہ کا نائب نہیں ہے۔ آدم زاد کو دوسری مخلوقات پر شرف اس لئے
حاصل ہے کہ وہ اسمائے الٰہیہ کا علم رکھتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔