Topics
ہم جب زمین کے
اوپر موجود نت نئی تخلیقات پر تفکر کر تے ہیں تو
یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ تخلیق کا عمل ظاہر ہیں نظروں سے دیکھا
جا ئے تو ایک نظر آتا ہے ۔ مثلاً ہم کسی درخت کی پیدا ئش کے بارے میں غور کر تے
ہیں تو ہمیں زمین کے اوپر موجود تمام درختوں کی پیدا ئش کا لا متنا ہی سلسلہ ایک
ہی طریقے ہر قائم نظر آتا ہے ۔درخت چھو ٹا ہو، بڑا ہو، تنا ور ہو ، بیل کی شکل میں
ہو یا جڑی بو ٹیوں کی صورت میں ۔ پیدا ئش کا سلسلہ یہ ہے کہ زمین کے اندر بیج بویا جاتا ہے۔ زمین
اپنی کوکھ میں یا پیٹ میں اس بیج کو نشو ونما دیتی ہے اور بیج کی نشو ونما مکمل ہو
نے کے بعد درخت وجود میں آجا تا ہے ۔ لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے باوجود یہ کہ پیدا
ئش کا طر یقہ ایک ہے ، ہر درخت اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے اور درخت کی یہ
انفرادیت نا مکمل نہیں ہو تی۔ مثلاً آم اور با دام کے درخت کو دیکھا جا ئے
تو درخت کی حیثیت سے وہ دونوں ایک ہیں ۔دونوں کی پیدائش کا طر یقہ بھی ایک ہے
دونوں کا قدو قامت بھی ایک جیسا ہے لیکن آمکے درخت کا پھل اور با دام کے
درخت کا پھل بالکل الگ الگ شکل و صورت میں موجود ہے ۔ اسی طر ح جب
ہم پھولوں کی طر ف متوجہ ہو تے ہیں تو پھول کا ہر درخت اپنی ایک انفرادی حیثیت
رکھتا ہے اور اس انفرادی حیثیت میں اس کے پتے بھی الگ ہو تے ہیں ۔ اس کی
شاخیں بھی الگ ہو تی ہیں ۔ اس کے اندر پھول بھی الگ ہو تا ہے۔ اور اس کے اندرپھول بھی الگ ہوتا ہے۔پھولوں کی بے
شمار قسموں پر جب نظر جا تی ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہو تی ہے ہر پھول میں
الگ خوشبو ہے ۔پھولوں میں ایسے گلینڈز ہوتے ہیں جن سے مختلف قسم کا خوشبو دار تیل
نکل کر ہوا میں اڑتا رہتا ہے اور اس طرح فضا میں خوشبو پھیلتی رہتی ہے۔پھولوں کے
گلینڈز میں خوشبودار تیل کا ذخیرہ سونگھنے
سے دماغ معطر ہو جا تا ہے۔ پھول اگر رنگین ہیں تو ہر درخت کے پھول الگ الگ رنگ لئے
ہوتے ہیں۔ رنگ سازی کا عالم یہ ہے کہ کو
ئی پھول اس قدر سرخ ہو تا ہے اس کے اوپر نظر جم جا تی ہے۔ پھولوں کے رنگوں میں
کہیں سفید ،کہیں سبز اور کہیں اودا رنگ ہو
تا ہے ۔ بے شمار رنگ زمین میں پھوٹتے رہتے ہیں ۔ اللہ کی شان بھی کیسی عجیب شان ہے
زمین ایک ہے ، ہوا ایک ہے ، پا نی ایک ہے ، پیدا ئش کا طر یقہ ایک ہے لیکن ہر چیز
ایک دو سرے سے مختلف ہے اور دوسری بات جو بہت زیادہ توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہر
پیدا ہو نے والی شئے میں کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ضرور ہو تا ہے ، کو ئی ایسی چیز
موجود نہیں جو بے رنگ ہو ۔ یہ رنگ اور بے رنگ دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان ایک
پردہ ہے ۔ خالق کو مخلوق سے جو چیز الگ ممتاز کر تی ہے وہ رنگ ہے ۔ انسان کے اندر
جب تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہو تا ہے یا اللہ اپنے فضل و کرم سے تخلیقی صلا حیتوں کا
علم بیدار کر دیتا ہے تو بندے کے اوپر یہ بات منکشف ہو جا تی ہے کہ کو ئی بے رنگ
خیال جب رنگین ہو جا تا ہے تو تخلیق عمل میں آجا تی ہے ۔اللہ بحیثیت خالق کے وارئے
بے رنگ ہے ۔
اللہ نے جب کائنات
کو بنانے کو ارادہ فر ما یا تو جو کچھ اللہ کے ذہن میں موجود تھا اس کا ارادہ کیا
اور کہا ’’ہو جا ‘‘ اور وہ چیز ہو گئی ۔ یعنی ورائے بے رنگ سے نزول کر کے اللہ کے
خیال نے ایک رنگ اختیار کیا۔ جس کوسمجھنے کے لئے رو حانیت نے بے رنگی کا نام دیا ہےیعنی
ایسا رنگ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر اس بے رنگی میں حرکت پیدا ہو ئی تو
رنگین وجود تخلیق میں آگیا ۔اور یہی وجود مختلف صورتوں میں اور مختلف رنگوں میں
اور مختلف صلا حیتوں کے ساتھ مجسم اور متشکل ہو گیا ۔
کائنات کی تخلیق
میں بنیادی عنصر یا بنیادی مسالا رنگ ہے ۔اور رنگوں کا امتزاج ہی تخلیقی فارمولے
ہیں۔رنگوں کی مناسبت سے یا ان رنگوں کی کمی بیشی سے مختلف تخلیقات عمل میں آتی ہیں
۔ انسان جو مخلوقات میں اللہ کی سب سے اچھی تخلیق ہے اور جس کو اللہ نے تخلیقی
حیثیت میں اپنا نا ئب قرار دیا ہے، اس کی اصلیت بھی رنگوں سے مر کب ہے ۔ اس تخلیق
کو سمجھنے کے لئےرو حانیت نے چھ دائرے
متعین کئے ہیں۔ اور ہردائرہ الگ الگ رنگوں سےمرکب ہے۔ روحانیت میں ان دائروں کو جب
رو شنی سے معمور کیا جا تا ہے تو ’’لطا ئف کا رنگین ہو نا ‘‘ کہتے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔