Topics
نسلی سلسلے کے
بارے میں یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ پیدا ئش میں انسان ، کتے اور بلی یکساں نو
عیت کے حامل ہیں ۔ ایک مائع لعاب (SPERMS) جب دو سرے مائع لعاب (SPERMS)میں مل
کر تحلیل ہو جا تاہے اور تخلیقی سا نچے میں ٹھہر جا تا ہے تو ایک خا ص پرو سیس (PROCESS) کے تحت اس کی نشو ونما شروع ہو جاتی
ہے۔ پہلی رات یہ محلول مٹر کے دانے کے برابر
ہو تا ہے پھر آہستہ آہستہ بڑھ کر ایک جیتی جا گتی دیکھتی ہنستی ، سنتی محسوس کر تی
تصویر بن جاتی ہے۔اس تصویر میں دس سوراخ ہو تے ہیں اور یہ دس سوراخ پو ری زندگی پر
محیط ہو تے ہیں ۔ ان ہی دس سوراخوں پر آدمی کی صلا حیتوں کا دارومدار ہے ۔ بولنا ،
سننا ، سونگھنا جسم کے اندر زہریلے اور فاسد ما دوں کو خارج کر کے جسم کو صاف
ستھرا کر نا اور ما دی زندگی کی حفاظت کر نا ان ہی دس سو را خوں پر قائم ہے ان دس
سوراخوں میں سے ایک سوراخ بھی اپنی ڈیو ٹی پو ری نہ کر ے یا یہ سو راخ نہ رہے تو اسی
منا سبت سے انسانی زندگی میں خلا ء واقع ہو جا تا ہے اور وہ بے کار، کم صلا حیت یا
عضو معطل بن جا تا ہے ۔ ان دس سورا خوں کی تقسیم اس طر ح ہے ۔
کا نوں کے دو
سوراخ آدم زاد کے اندر قوت سامعہ ہیں ۔ آنکھوں کے دو سوراخ با صرہ یعنی با ہرکے
عکس کو دماغ کی اسکرین پر منتقل کر کے کسی چیز کے ہو نے کا علم فر اہم کر
تے ہیں اور یہ علم مختلف مراحل سے گزرکر لا مسہ بن جا تا ہے ۔ ناک کے دو سوراخ
ہمیں شامہ عطا کر تے ہیں منہ اور حلق کے سو را خ ہمیں غذائی معاملا ت میں
خود کفیل کر تے ہیں۔ ایک طر ف ہماری تمام غذائی ضروریات کا دارو مدار اس سو را خ
پر ہے دو سری طر ف یہ سو را خ قوت گو یا ئی عطا کر تے ہیں۔ نواں سو راخ جہاں کثافت
کو دور کر نے کا ذریعہ ہے وہ افزائش نسل کا ذریعہ بھی بنتا ہے غذامیں سے توانائی (ENERGY)حاصل کر نے کے بعد جو فضلہ با قی رہ جا تاہے،
دسواں سوراخ ان کے اخراج کا ذریعہ ہے ۔ یہ ایک نظام ہے جو تواتر کے ساتھ قائم ہے
اور قیامت تک قائم رہے گا۔
ہمیں بیج کے پھو
ٹنے پر تین چیزوں کا ادراک ہو تا ہے ۔ ایک تنا اور دو پتے ، اس تخلیقی عمل سے یہ
با ت سامنے آچکی ہے کہ ہر چیز اور ہر وجود دو رخوں پر قائم ہے اور پھر یہ دو رخ
تقسیم ہو کر کئی رخ بن جا تے ہیں ۔ آدمی بھی دو رخوں سے مر کب ایک تصویر ہے ۔ آدمی
کے اندر دو دماغ ہو تے ہیں ۔ ایک دا ئیں طر ف اور دو سرا با ئیں طر ف ،دو آنکھیں ہو تی ہیں۔ ناک کے دو نتھنے ہو
تے ہیں۔ حلق بظا ہر ایک نظر آتا ہے مگر حلق کے اندر گوشت کا لو تھڑا یا کوّا لٹکا
رہتا ہے ۔ اس کی وجہ سے حلق د و حصوں پر تقسیم ہو جا تا ہے ۔ دو ہا تھ ہو تے ہیں دو
ٹانگیں ہو تی ہیں دو پیر ہو تے ہیں۔ دو گر دے ہو تے ہیں ، دو جگر ہو تے ہیں۔ دل کر
اگر تقسیم کیا جا ئے تو وہ ایک پر دے (SEPTUM)کے ذریعے بنیادی طور پر دوحصوں میں تقسیم ہو جا تا ہے ۔ پھیپھڑے دو ہیں۔
علی ہذا القیاس ما دی جسم کا جب تجز یہ کیا جا تا ہے تو ہم یہ تسلیم کر نے پر
مجبور ہیں کہ انسان کی تخلیق دو رخوں پر قائم ہے مزید سو چ و بچار اور چھا ن بین
کی جا ئے تو ہم یہ دیکھتے ہیں نو ع انسانی اور تمام نوعیں بھی دو رخوں پر قائم ہیں
۔ ایک مذکر اور ایک مونث، ایک مرد اور ایک عورت۔ایک باپ
اور ایک ماں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔