Topics

مراقبہ


مرا قبہ کی تشریح کر تے ہو ئے قلند ربابا اولیا ء ؒ فر ما تے ہیں کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان دنیا وی حالات و واقعات اور دنیا وی دل چسپیوں اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جا تا ہے ۔ غیب کی دنیا میں داخل ہو نا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان زمان و مکان سے آزاد نہ ہو یعنی جسمانی گو شت پو ست اور جسما نی تقاضوں سے جب تک کو ئی آدمی ذہنی طور پر یکسو نہیں ہو تا، غیب کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جسمانی تقاضے سے آزاد ہو نے کا مطلب یہ نہیں انسان کے اوپر موت وارد ہو جا ئے ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان جسمانی تقاضوں کو ثانویت دے دے دے اور جہاں سے جسمانی تقاضے رو شنی کی شکل میں نزول کر رہے ہیں ان کی طر ف متوجہ ہو جا ئے ۔

مراقبہ کا آسان طر یقہ یہ ہے کہ آدمی کسی تا ریک گو شے میں جہاں گر می سردی معمول سے زیادہ نہ ہو، آرام دہ نشست کے ساتھ بیٹھ جا ئے ۔ ہاتھ، پیروں اور جسم کے تمام اعصاب کو ڈھیلا چھو ڑ دے ۔اور اپنے اوپر ایسی کیفیت طاری کر لے جس کیفیت میں جسم کی موجودگی کی طرف سے ذہن ہٹ جا ئے۔ سانس گہرائی میں لیا جا ئے ۔گہرائی میں سانس لینے سے سانس کی رفتار میں ٹھہراؤ پیدا ہو جا تا ہے ۔ آنکھیں بند کر لی جا ئیں اور بند آنکھوں سے اپنے اندر جھا نکنے کی کوشش کی جا ئے۔ خیالات اور عمل پا کیزہ ہیں ۔ خیالات اور عمل کی پا کیزگی یہ ہے کہ کسی کو برا نہ سمجھے۔ کسی کی طر ف سے بغض و عناد نہ رکھے اگر کسی سے تکلیف پہنچی ہے تو انتقام نہ لے اور معاف کر دے ۔ ضروریات زندگی اور معاش کے حصول میں اعضا کا وظیفہ پو را کر ے ۔جدو جہد میں کو تا ہی نہ کرے لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے ۔ کسی عمل سے یہ محسوس ہو جا ئے  کہ مجھ سے کسی کی دل آزاری ہو گئی  ہےیا کسی کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے تو بلا تخصیص وہ کمزور ہو ، نا تواں ہو ، غر یب ہو ، چھو ٹا ہو یا بڑا ہو اس سے معافی مانگ لی جائے ۔ آدمی جو کچھ اپنے لئے پسند کر تا ہے وہ دو سروں کے لئے بھی پسند کر ے ۔ ذہن کے اندر مال و متا ع اور اسباق کی اہمیت نہ ہو ۔ اللہ کے پھیلا ئے ہو ئے اور دئیے ہو ئے وسائل کو خوش ہوکر استعمال کر ے لیکن دنیا وی وسائل کو مقصد زندگی نہ بنا ئے ۔ جس طر ح ممکن ہو دامے درمے ، قدمے ، سخنے ، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی جا ئے ۔

جس شخص کے اندر پا کیزہ خیالات ، پا کیزہ اوصاف موجود ہو تے ہیں مراقبے کے عمل سے اس کا لطیفہ نفسی (لطائف کا ذکر اس کتاب کے پچھلے اسباق میں تفصیل سے آچکا ہے) جلد رنگین ہو جاتا ہے ۔ لطیفہ نفسی کے رنگین ہو جا نے سے شعور کے اندر جلا پید اہو جا تی ہے شعور کا آئینہ شفاف ہو تا ہے۔

مرا قبہ ایک ایسا عمل ہے جس عمل میں رُو حانی  استاد یا اپنے مر شد کے حکم کی تعمیل ضروری ہے ۔ سالک یا رُوحانی شاگر د کے اندر اگر چوں چرا ہے اور تعمیل نہیں ہے تو مراقبہ کا عمل پو را نہیں ہو تا ۔ مراقبے میں کامیابی کے لئے مراقبے کا صحیح  نتیجہ مرتب ہو نے کے لئے خود سپر دگی ضروری ہے۔

مرا قبے کے ذریعے انسان عالم ظاہر کی طر ح عالم باطن کی دنیا سے روشناس ہو تا ہے ۔ جب سالک غیب کی دنیا میں د اخل ہو جا تا ہے تو جس طر ح وہ عالم نا سوت یا اس دنیا میں زندگی گزارتا ہے اور زندگی کے تقاضوں کو پو را کر تا ہے اسی طر ح وہ غیب کی دنیا میں نظام شمسی اور بے شمار افلاک کو دیکھتا ہے ۔ فر شتوں سے متعارف ہو تا ہے ۔ ان سے ہم کلام ہو تا ہے۔ اس کے سامنے وہ تمام حقائق آجا تے ہیں جن حقائق پر یہ کائنات تخلیق ہو ئی  ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں بر سرِعمل ہیں۔ ان رو شنیوں کا منبع(SOURCE) کیا ہے ۔ یہ رو شنیاں کس طر ح تخلیق ہو رہی ہیں افراد کا ئنات میں کس طر ح تقسیم ہو رہی ہےاور رو شنیوں کے مقداروں کے رودوبدل سے کائنات کے نقوش کس طر ح بن رہے ہیں۔ سالک کی آنکھ یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ روشنیوں کا منبع انوار ہے ۔ پھر اس پر وہ تجلی بھی منکشف ہو جاتی ہے جو رو شنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے ۔

با نی قلندر شعور قلند ر بابا اولیا ء ؒ نے مراقبہ کا ایک مر بوط نظام قائم کیا ہے۔ جس طر ح کسی بھی علم کو سیکھنے کے لئے شاگر د استاد کی سر پر ستی میں الف ، ب ، پ، ت ،پڑھتا ہے، پھر جملے بنانا سکھا تا ہے اور اس کے بعد بڑی بڑی کتا بیں پڑھنا اس کے لئے معمول بن جا تا ہے اس ہی طر ح ماورائی علوم سیکھنے کے لئے رُوحانی استاد کی سر پر ستی ضروری ہے ۔ 


Topics


Qalandar Shaoor

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔

*ایک کتاب المبین 

*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ 

*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے

*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام 

*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔ 

یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود  ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔