Topics
آسمانی کتابوں کو
پڑھنے اور ان کتابوں کی تعلیمات پرغور کر نے سے یہ بات منکشف ہو تی ہے کہ آدم کو
ایک جان سے تخلیق کیا گیا ہے ۔ تخلیق کی اس بنیاد کو نفس ، جان اور نقطہ واحدہ کہا
گیا ہے ۔
عام حالات میں جب
ہم تخلیق کا تذکرہ کر تے ہیں تو یہ سمجھا جا تا ہے کہ ہر نوع کا ایک آدم ہے ۔ اور
یہ ساری نوع آدم و حوّاسے وجود میں آئی ہے ۔ جس طر ح ایک آدم کی نوع کا تعلق آدم و
حوّاسے ہے اس طر ح بکر ی کی نوع کا تعلق بکرے اور بکر ی سے ہے ۔ علی ہذ
القیاس کا ئنات میں ہر نو عی پرو گرام اس فا رمولے پر قائم ہے۔ یعنی کسی وقت آدم
اور حوّاکا وجود تخلیق ہوا اور ا س کی نسل چل پڑی ۔ بیل ، بکر ی ، بھیڑ ، کبو تر ،
بلی ، کتا اور نئے نئے پرندوں کی تخلیق بھی ان کے آدم و حوّاسے وجود میں آئی ۔ جس
طر ح با وا آدم سے آدمی بنا اس طر ح
باواطوطے سے طو طا بنا ۔ با وا بکرے سے بکرے کی نسل چلی ۔اور با وا کبو تر سے کبو
تر کی نسل وجود میں آئی ۔ یہ تذکرہ ہے اس تخلیق کا جس تخلیق کو ہم گو شت پو ست کا
نام دیتے ہیں۔ پیدا ہو نے والا ہر فر دوہ آدم ہو ، بھیڑ ہو ، بکر ی ہو ، بندر ہو
گو شت پو ست کے عارضی جسم سے مر کب ہے کچھ عرصہ وہ نرم و نازک رہتا ہے۔ پھر
اس کے اوپر جو لا نیت طا ری رہتی ہے ۔ پھر اعصاب اور اعضا خشک رہنے کے بعد یہ
جسمانی نظام ختم ہو جا تا ہے ۔ ان ہی کیفیات کو زندگی اور موت کہا جا تا ہے لیکن
ہمیں ہر لمحہ ہر آن یہ علم بھی منتقل ہو تا رہتا ہے کہ جسمانی وجود جس طر ح ایک
عارضی شئے ہے اسی طر ح وہ وجود جس کے اوپر جسمانی نظام کی بلڈنگ کھڑی ہو تی ہے ،
مستقل ہے ۔ جب تک مستقل وجود جسمانی ڈھا نچے کو سنبھا لے رکھتا ہے، جسمانی بلڈنگ
خوش نما ، خوب صورت اور متحرک رہتی ہے ۔اور جب ان دیکھا وجود اس عارضی وجود سے
اپنا رشتہ منقطع کر لیتا ہے تو کچھ بھی با قی نہیں رہتا ۔ اس ان دیکھے وجود کو اوتار
، اور پیغمبروں نے جان ، نفس ، نقطہ اوررُو ح کے نام سے متعارف کر ایا ہے ۔
قلندریہ سلسلے سے
جب رُو حانی دنیا کے مسافر کو قلندر شعور
کی نسبت حاصل ہو تی ہے تو اس کے اندر کی آنکھ یہ دیکھ لیتی ہے کہ جان ، نفس
، نقطہ یا رُو ح تخلیق کر نے والی ہستی کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔
تخلیق کر نے والی ہستی کی تجلی کا ایک وصف ہے۔ اور تجلی کا وصف قدرت اور رحمت کے
ساتھ جان ، نفس یا نقطہ کے ساتھ ہم رشتہ ہے ۔
کائنات میں ہر
موجود شئے لہروں کے تا نے بانے پر قائم ہے ۔ اور یہ لہریں نور کے اوپر قائم ہیں ۔
اللہ کی زبان میں زمین آسمان اللہ کا نور ہیں۔ تخلیق کی ایک حیثیت نورانی ہے اور
تخلیق کی دو سری حیثیت رو شنی ، نفس ، جان یا نقطہ ہے۔ ان لہروں یا تخلیق کے اندر
نورانی وصف کو تلاش کر نے کیلئے اللہ کے دوستوں نے انسانی شعور کی مناسبت سے قاعدے
بنا ئے ہیں ۔ اور اس ایک نقطے کو چھ پر تقسیم کر دیا تا کہ ایک مبتدی سالک آسانی
کے ساتھ سمجھ سکے ۔ اس نقطے کے چھ حصوں کے نام رُو حانیت میں لطا ئف ستہ یا چھ لطیفے ہیں ۔
پہلا لطیفہ جس کو
اخفیٰ کا نام دیا گیا ہے ۔ہر انسان کے اند ر نقطہ واحدہ- یہی وہ نقطہ ہے جو اللہ
کا گھر ہے ، جس میں اللہ بستا ہے۔ جس نقطے کے اوپر براہ راست اللہ کی
تجلیات کا نزول ہو تا ہے ۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کے داخل ہوجا نے سے انسان کا ئنات کے
اندر جا ری و ساری نظام میں داخل ہو جا تا ہے۔ اور کا ئنات کے اوپر اس کی حکومت
قائم ہو جا تی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس میں داخل ہو نے کے بعد اللہ کا یہ ارشاد سمجھ
میں آتا ہے کہ ہم نے تمہا رے لئے آسمانوں میں، زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب مسخر
کر دیا ہے ۔یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب تمہا را محکوم ہے۔ تم
اس کے حاکم ہو۔ اور اس ارشاد کی تفصیل یہ سامنے آتی ہے کہ ہم نے تمہا رے لئے سورج
کو مسخر کر دیا ،چا ند کو مسخر کر دیا ، اللہ نے مخلوق کی خدمت کے لئے ایک ڈیوٹی
تفویض کی ہے ۔ یہ بات ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لا
ئیں ۔ چاند ہو ، سورج ہو ، ستارے ہوں ، ہوا ہو ، پا نی ہو ، گیس ہو ، درخت ہوں ،
حیوانات ہوں، نبا تات ہوں ، جمادات ہوں ، سب انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں ۔
یہ مسخر ہونا "قلندر شعور "کی دانست میں مسخر ہو نا نہیں ہے ۔
اللہ نے ایک قانون
بنا دیا ہے۔اس قانون پر عمل در آمد ہو رہا ہے ۔ ہر چیز انسان کی خدمت میں مصروف
عمل ہے ۔ مسخر ہونا یا کسی چیز پر حاکمیت
قائم ہو نا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس چیز پر تصرف کیا جا سکے حالانکہ موجودہ صورتحال
یہ ہے کہ نو ع انسانی چا ند اور سورج کےتصرف میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ اگر
چا ند اور سو رج اپنا تصرف ختم کر سکتے تو زمین کا وجود قائم نہیں رہتا ۔ مثلاً یہ
کہ ہم دھو پ کے محتاج ہیں ۔غذاؤں میں شیرنی پیدا ہونے کے لئے ہم اس بات کے محتاج
ہیں کہ چاند ہماری خدمت کر ے ۔ لیکن ہمیں چا ند اور سورج پر کو ئی حاکمیت اور تصرف
حاصل نہیں ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔