Topics

ظاہر اور با طن


یہ ایک تخلیقی لا متنا ہی سلسلہ ہے جو ہمیں ایک تفکر کی دعوت دیتا ہے کہ ایک ہمارا ظا ہر ہے، دو سرا ہمارا با طن ۔ ظا ہر کو ہم ’’ما دہ ‘‘ کہتے ہیں اور با طن کو ’’رُو ح   ‘‘ کہا جا تا ہے ۔  رُو ح بھی دو ۲رخ پر قائم ہے رُو ح   کا مظا ہرہ ایک رُو ح کے بنائے ہو ئے لباس سے ہو تا ہے اور رُو ح   کا دو سرا مظا ہرہ خود رُو ح  ہے ۔ حضور قلندر با بااولیا ء ؒ نے اپنی کتاب لو ح و قلم میں اس کی مثال قمیض اور جسم سے دی ہے ۔ فر ما تے ہیں :

ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گو شت اور پو ست سے مر کب ہے ، طبی نقطہ نظر سے ہڈیوں کے ڈھا نچے پر رگ پٹھوں کی بنا وٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے ۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام ''لباس ''ہے ۔ یہ لباس سو تی کپڑے کا ، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہو ا کر تا ہے ۔ اس لباس کا محل استعمال صرف گوشت پو ست کے جسم کی حفاظت ہے ۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کو ئی زندگی یا اپنی کو ئی حرکت نہیں ہو تی ۔جب یہ لباس جسم پر ہو تا ہے تو جسم کے ساتھ حر کت کر تا ہے یعنی ا س کی حر کت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی ۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضا کی حرکت ہے ۔جب ہم ہا تھ اٹھا تے ہیں توآستین بھی گو شت پو ست کے ہا تھ کے ساتھ حر کت کر تی ہے ۔ یہ آستین اس لباس کا حصہ ہے جو لباس جسم کی حفا ظت کے لئے استعمال ہو ا ہے ۔ اس لباس کی تعریف کی جا ئے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہو تا ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جا تی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چا ر پا ئی پر ڈال دیا جا ئے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جا ئے تو اس کی تمام حر کات ساقط ہو جا تی ہیں۔ اب ہم لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کر تے ہیں ۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشین ہو سکتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مر گیا۔ مر نے کے بعد اس کے جسم کو کا ٹ ڈالئے ،ٹکڑے کر دیجئے، کچھ کیجئے جسم کی اپنی طر ف سے کو ئی مدا فعت ،کو ئی حر کت عمل میں نہیں آئے گی ۔ اس مر دہ جسم کو ایک طر ف ڈال دیجئے تو ا س میں زندگی کا کو ئی شا ئبہ کسی لمحے بھی پید اہو نے کاامکان نہیں ہے ۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جا ےَ پڑا رہے گا ۔ اس کے معنی یہ ہو ئے کہ مر نے کے بعد جسم کی حیثیت لباس کی رہ جا تی ہے ۔اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا ۔ وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جا تاہے اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نو عیت سے اس کے اندر زندگی کا کو ئی شائبہ ضرور پا یا جا تا ۔لیکن نو ع انسانی کی مکمل تا ریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی کہ کسی مر دہ جسم نے کبھی حر کت کی ہو ۔ اس صورت میں ہم اس انسان کاتجسس کر نے پر مجبور ہیں جو اس جسم کے لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہو جا تا ہے۔ اس ہی انسا ن کا نام انبیا ء اکرام  کی زبان میں ''رُو ح  ''ہے ۔ اور وہی انسان کا اصل جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلا حیتوں کاما لک ہے  جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں ۔

جسم اور لباس کی اس خوبصورت ت تشبیہ اور مثال سے یہ بات پو ری طر ح ثابت ہو جا تی ہے اصل انسان یا اصل زندگی لباس نہیں ہے۔ جب تک جسم کے اوپر لباس ہے، لباس کی حیثیت بر قرار ہے اور جب ہم لباس کو اتار دیتے ہیں یا لباس سے اپنی دلچسپی ختم کر دیتے ہیں تو لباس کی کو ئی حیثیت نہیں رہتی ۔لباس بکھر جا تا ہے لباس فنا ہو جا تا ہے ۔ 

Topics


Qalandar Shaoor

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔

*ایک کتاب المبین 

*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ 

*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے

*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام 

*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔ 

یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود  ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔