Topics
تخلیقی فا رمولوں
کا علم رکھنے والے بندے یہ جانتے ہیں کہ کا ئنات اور کا ئنات کے اندر تمام مظاہرات
کی تخلیق دو رخ پر کی گئی ہے۔ اس حقیقت کی رو شنی میں سانس کے دو رخ متعین
ہیں ۔ ایک رخ یہ ہے کہ آدمی اندر سانس لیتا ہے اور دوسرا رخ یہ ہے کہ سانس با ہر
نکالاجا تا ہے ۔ گہرائی میں سانس لینا صعودی حرکت ہے ۔ اور سانس کا باہر آنا نزولی
حرکت ہے۔ صعود اس حرکت کانام ہے جس حرکت میں تخلیق کا ربط براہ راست خالق کے ساتھ
قائم ہے اور نزول اس حرکت کا نام ہے جس میں بندہ غیب سے دور ہو جا تا ہے اور ٹائم
اسپیس کی گرفت اس کیا اوپر مسلط ہو جا تی ہے ۔
جب کچھ نہ تھا ۔
اللہ تھا اللہ نے چا ہا ساری کا ئنات تخلیق ہو گئی ۔ کلیہ یہ بنا کہ تخلیق کی
بنیاد اللہ کا چا ہنا ہے۔اللہ کا چا ہنا اللہ کا ذہن ہے یعنی کائنات ا ور ہمارا
اصل وجود اللہ کے ذہن میں ہے۔ قانون یہ ہے کہ شئے کی وابستگی اصل سے بے قرار نہ
رہے تو وہ شئے بے قرار نہیں رہتی ۔ اس وابستگی کا قیام مظاہراتی خدوخال میں صعودی
حرکت سے قائم ہے اور صعودی حرکت اندر سانس لینا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارا جسمانی
تشخص بھی ہے ۔ اس جسمانی اور ما دی تشخص کی بنا نزولی حرکت ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔