Topics
جب ہم عقل و شعور
کا موازنہ کر تے ہیں تو کو ئی آدمی ہمیں زیادہ با صلا حیت نظر آتا ہے کو ئی آدمی
کم صلا حیت اور کو ئی آدمی بالکل بے عقل ہو تا ہے ۔ سائنس خلا(SPACE) میں چہل قدمی کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن ایسی
کو ئی مثال سامنے نہیں آئی کہ بے عقل آدمی کو عقل مند بنا دیا گیا ہو ۔
اللہ ہی اپنی مرضی
سے عقل و شعور بخشتا ہے۔آدمی کے اندر فکرو
گہرائی عطا کر تا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر اللہ فکر اور گہرائی عطا کر
تا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا ذاتی وصف ہے اور جب یہ فکر اور گہرائی ان سے چھین
لی جا تی ہے تو اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔
زندگی کے تمام
اجزائے ترکیبی ایک طاقت کے پابند ہیں وہ طاقت جس طرح چا ہے رو ک دیتی ہے اور جس طر
ح چاہے انہیں چلا تی ہے ۔ قلندر شعور کے با نی قلندربابااولیا ء ؒ ارشادفر ما تے
ہیں کہ لوگ نادان ہیں، کہتے ہیں کہ ہماری گر فت حالات کے اوپر ہے۔ انسان اپنی مر
ضی اور منشاہ کے مطا بق حالات میں ردوبدل کرسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان ایک
کھلونا ہے ۔حالات جس قسم کی چا بی اس کے اندر بھر دیتے ہیں اسی طر ح یہ کو دنا ،
ناچنا شروع کر دیتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات کے اوپر انسان کو
دستر س حاصل ہو تی تو کوئی آدمی غریب نہ ہو تا ، کو ئی آدمی بیمار نہ پڑتا کو ئی
آدمی بوڑھا نہ ہو تا او ر کو ئی آدمی موت کے منہ میں نہ جا تا ۔
تا ریخ ہمیں بتا
تی ہے کہ بڑے بڑے لوگ جنہوں نے خدا ئی کا
دعویٰ کیا ،موت کے پنجے نے ان کی گر دن موڑ کر رکھ دی ۔ شداد ، نمرود اور فرعون کی
مثالیں ایسی نہیں ہیں جن کو ہم محض کہا نی
کہہ کر گزر جا ئیں ۔ تا ریخ ہرزمانے میں خود کو دہراتی ہے۔ البتہ رنگ روپ، نام ، شکل
و صورت بدل جا تے ہیں ۔اس زمانے میں شہنشاہ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے
ڈھا ئی ہزار سال کی سالگرہ منائی، موت کے پنجے نے اس کو اس قدر بے بس اور ذلیل کر
دیا اس کے لئے اس کی سلطنت کی زمین بھی تنگ ہو گئی۔ اور وہ دیار غیر میں مرگیا ۔
کو ئی اس کا پر سان حال نہیں ہو ا ۔ اگر حالات انسان کی گر فت میں ہیں تو
اتنا بڑا با دشاہ غر یب الدیا ر کیسے بن گیا ۔ اس قسم کے بے شمار واقعات ہر روز
پیش آتے رہتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ
ہم ان با توں پر غور نہیں کر تے اور ان سب با تو ں کو اتفاق کہہ کر گزر جا تے ہیں ۔جب
کہ کا ئنات میں اتفاق اورحادثہ کا کو ئی دخل نہیں ہے ۔ اللہ کا ایک نظام ہے
جو مر بوط ہے ۔ ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں نہ کہیں
اتفاق ہے، نہ کہیں حادثہ ہے ، نہ کو ئی مجبوری ہے ۔
جب کسی بندے کے
اندر یہ بات یقین بن جا تی ہے اس نظام میں کو ئی چھو ٹی سے چھو ٹی حر کت اور بڑی
سے بڑی شئے اللہ کے بنا ئے ہو ئے نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک یقین کا پیٹرن
بن جا تا ہے۔ اس پیٹرن کو جب تحر یکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش
آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑ یاں اس قدر مضبوط اور مستحکم اور مربوط ہو تی ہیں کہ
آدمی یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کائنات پر حاکم اعلیٰ اللہ ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔