Topics
اللہ نے آدم کو
علم الاسماء سکھا دیا یعنی اپنی صفا ت کی حقیقت سے آدم کو آشنا کر دیا ۔اور فر
شتوں سے پو چھا کہ اگر تم جا نتے ہو تو بیان کر و ۔ فر شتوں نے اس بات کا اعتراف
کیا کہ ہم صرف اس حد تک جا نتے ہیں جو آپ نے ہمیں بتا دیا ہے ۔ یعنی آدم کی حیثیت
علمی اعتبار سے فر شتوں سے زیادہ ہے۔ اللہ اور فرشتوں کی اس علم و آگہی کی گفتگو میں تین ہستیاں موجود ہیں ۔ایک
آدم اور دوسری ہستی فر شتوں کی اور تیسری ہستی خود اللہ کی ذات ۔ آدم اللہ کو بھی
دیکھ رہا ہے ۔ اس کے سامنے فر شتے بھی ہیں ۔ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ اللہ نے
جو علم مجھے عطا کر دیا ہے، وہ فر شتے نہیں جانتے۔ نہ صرف یہ کہ فر شتے یہ
علم نہیں جا نتے بلکہ وہ اس کا اعتراف بھی کر تے ہیں کہ علم کی اس حیثیت
میں جو آپ نے آدم کو عطا فر ما دیا ہم آدم سے کم تر ہیں ۔ جس عالم میں یہ گفتگو ہو
رہی ہے اس عالم کو غیب کی دنیا کے علاوہ دو سرا نام نہیں دیا جا سکتا ،اس لئے کہ
فر شتے غیب کی دنیا کی مخلوق ہیں ۔ اور اللہ کی ذات غیب ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ آدم
غیب میں نظر یں رکھتاہے ۔اس کے اندر غیب کو دیکھنے ، سمجھنے ، سننے اور محسوس کر
نے کی صلاحیت موجود ہے ۔
اللہ کیوں کہ لا
متنا ہی ہے ۔ اس لئے اللہ کی صفات کا علم بھی لا متنا ہی ہے ۔ یعنی آدم کو اللہ نے
جو علم عطا کیا ہے وہ بھی لا متنا ہی ہے ۔ یہ علم سمندر ہے جس کا کو ئی کنا
رہ نہیں ۔ جب آدم کی حیثیت فر شتو ں سےافضل قرار پا گئی تو کا ئنات میں موجود تمام
انواع و موجودات سے آدم افضل ہو گیا اس لئے کہ آدم کے پاس لا متنا ہی صفاتی علم ہے
۔ اللہ کی صفات کیا ہیں ؟ اللہ بحیثیت ذات خالق ہے اور اللہ کی تمام صفات بحیثیت
خالق کائنات کے تخلیقی عنا صر اور تخلیقی فا رمولے ہیں ۔ یہی وہ امانت ہے جو آدم
کو اللہ نے اپنی رحمت خاص سے عطا فر ما ئی ہے ۔
آدم اور اللہ کی
گفتگو میں اگر تفکر کیا جا ئے تو یہ بات سامنے آجا تی ہے کہ نو ع انسانی کے علاوہ
اور بھی مخلوق ہیں جن میں سے ایک کا نام فر شتہ ہے اور دو سری کا نام جن ہے ۔ ہم
نہ جنات کو دیکھ سکتے ہیں نہ فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جنات اور فر شتوں کی دنیا
سے ہم اس لئے متعارف نہیں ہیں کہ ہم اس امانت سے بے خبر ہیں جو اللہ نے ہمیں اپنی
رحمت خاص سے عطا فر ما ئی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔
*ایک کتاب المبین
*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔
یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔