Topics
یہ طاق اور ٹوٹے ہوئے در و دیوار
ذروں میں نظر آتے ہیں سارے آثار
ذروں میں گرم شاعروں کی محفل
ذروں میں ہیں بند شاعروں کے اشعار
تشریح ! حضور قلندر بابا اولیاء کی یہ
رباعی انتہائی فکر انگیز اور منفرد تصورات و احساسات کی حامل ہے، آپ کے نزدیک دنیا
اور دنیا کی رونق بےثباتی میں بھی وجود بقا کا پہلو رکھتی ہے اور یہی منفرد فکر
اورکمالات انسانی کی لافنائیت کا یہی تصور آپ کی ذات اور آپ کے احساسات کو عام ذہنوں
اور عام تصورات سے بلند و بالا رکھتا ہے۔
عظیم الشان محلات اور
عیش گاہوں کے اجڑے ہوئے طاق اور ٹوٹے ہوئے در و دیوار سرسری نگاہ سے دیکھنے والوں
کے لیے محض روزمرہ کی داستان دہراتے ہیں، کہ دنیا کی ہر شے فانی ، ہر شے کی تعمیر
میں تخریب اور ہر کمال کا مقدر زوال ہے، اس سے زیادہ نہ یہ نگاہیں دیکھ سکتی ہیں
اور نہ ایسے ذہن اس سے ماوراء کوئی اور تصور قائم کر سکتے ہیں، مگر شاعر (حضور
قلندر بابا ولیاء ؒ، شاعر کو فطرت کا مزاج شناس سمجھتے ہیں) کے نزدیک یہ تخریب و
زوال کا عمل محض عبرت کی داستان ہی نہیں بلکہ اس کے تخلیقی ذہن اور گہرائیوں میں
حقیقت تلاش کرنے والی نگاہوں کے سامنے ان محلات اور عیش گاہوں کے ٹوٹے ہوئے طاق اور در و دیوار کے
ذروں میں وہ عظیم الشان عمارتیں ایک بار پھر پوری آب و تاب سے مکمل اور منور نظر آتی ہیں جن سے شاعر کی حسین یادیں وابستہ
ہیں۔اس بے ثباتی اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں شاعر ان مقامات کی تصویر بھی دیکھتا ہے
جن میں چند لمحے گزار کر یا جن محفلوں میں شریک ہوکر اس نے روداد اول بیان کی تھی۔
اور جن اشعار نے اس کی زندگی میں ہی قبولیت عام حاصل کر لی تھی۔اب اگرچہ وہ در و
دیوار وہ محفلیں اپنی خوبیاں اور رعنائیاں کھوکر داستان پارینہ بن گئی ہیں، مگر
شاعر کا کلام اور ان محفلوں کی یاد، ابھی تک محفوظ ہیں، اس کی گواہی بھی اس در و
دیوار کے ذرے ذرے دے رہے، ہیں امتدادِ زمانہ سے مٹی کا ڈھیر مٹی میں مل گیا، مگر
روداد اول جو مادیت اور زمان و مکان سے ماورا ہے ابھی تک ان ذرات کے دل کی دھڑکن
بنی ہوئی ہے۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
____________________
روحانی ڈائجسٹ،ستمر ۸۳،جون۰۲
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔