Topics
کل روز ازل یہی تھی
مری تقدیر
ممکن ہو تو پڑھ آج جبیں کی تحریر
معذور سمجھ واعظ ناداں مجھکو
ہیں بادہ و جام سب مشیت کی لکیر
تشریح! اے واعظ! میں جس آقا کا غلام ہوں، ان کا ارشاد ہے۔۔۔۔قلم لکھ کر خشک ہوگیا۔ آج میری پیشانی پر زندگی کی جو فلم رقصاں ہے وہ میری پیدائش سے پہلے ہی ازل میں بن گئی تھی، اور یہی میری تقدیر ہے، اے واعظ! تیرے وعظ و نصیحت کا میرے اوپر کیا اثر ہوگا تو خود ازل کی لکھی ہوئی تحریر ہے، یہ سب بادہ و جام کی باتیں بھی ازل میں ہی لکھی جاچکی ہیں، یہ شراب زندگی) اور یہ جام (خاکی لباس سے مزین یہ بدن) قدرت کی ایسی لکیر ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا ۔ اے واعظ! یہ سعادت ازلی سعادت مندوں کو میسر آتی ہے۔ ازلی شقی اس کے قرب سے محروم رہتے ہیں، بالآخر ایک وقت آئے گا کہ یہ لکیریں (لہریں) منتشر ہو جائیں گی۔ Gravity کا دائرہ کار ختم ہو جائے گا اور آدمی کا جسم تحلیل ہوجائے گا۔
_______________
روحانی ڈائجسٹ: اپریل 83،
اگست 2003، تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
صفحہ 142
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔