Topics
الْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾
پارہ ۳۰: سورہ: ۱۰۲التکاثر، آیت ۱،۲
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ
يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿٨﴾
پارہ ۳۰: سورہ:
۱۰۲التکاثر، آیت 8
انسان کاغرور اقتدار و زر ہے
گر یہ بھی نہیں تو مذہب و ممبر ہے
دیکھا جو اسے بعد فنا ہونے کے
معلوم ہوا یہ خاک مٹھی بھر ہے
تشریح! کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے سامان دنیا اپنے گرد اکٹھا کیا، ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی فراموش کردیئے۔ جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزت و توقیر کے حصول کا تعلق ہے، یہ ایک خود فریبی ہے۔ ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ فراعین مصر کے محلات ، قارون کے خزانے ہمں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ آج ترقی یافتہ اقوام اس لیے عذاب میں مبتلا ہیں کہ ترقی کے پیچھے ان کے محدود مفادات ہیں۔ ہر ترقی مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے ذاتی منفعت کے لیے خوبصورت دنیا کو بد ہیئت بنا دیا ہے۔ جگ مگ کرتے ستاروں کی سہانی راتوں کو دھندلادیا۔ پرخمار اور سحر انگیز نسیم صبح میں ایٹمی ایندھن کا زہر گھول دیا ہے۔ یہ وہ عروج یافتہ قوم ہے جسن نے پھولو ں کی مسکراہٹ چھین لی۔ اب پرندوں کی روح پرور چہچہاہٹ ایک نغمہ ٔ دل سوز بن کر رہ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو عدم تحفظ کے عمیق غار میں دھکیل دیا ہے۔ عدم تحفظ کی حالت میں سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے چاندنی کا حسن اور دھوپ کی خوب صورتی ماند پڑ گئی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ایٹمی تجربات ، ڈیزل و پڑرول کے بخارات اور جیٹ طیاروں کے آتشی فضلات نے فضا کو کچھ اس طرح زہر آلود کر دیا ہے کہ انسان کے اندر جانے والا ہر سانس زہرناک بن گیا ہے۔ اور اس زہرناکی نے انسان کو زیر و زبر کر دیا ہے۔ اعصاب ٹوٹ گئے ہیں، ذہن بکھر گیا ہے۔ دل ہے کہ ہر لمحہ ڈوب جانے کو بضد ہے۔ ترقی کے پر فریب پردوں میں سسکتی ہوئی، تڑپتی اور روتی ہوئی قوم نے عافیت اس میں سمجھی کہ عدم تحفظ کے خوف ناک عفریت سے فرار اختیار کیا جائے ، لیکن اس سے فرار میں بھی انہیں لالچی اور خود غرض جینیس ذہن نے شکار کی طرح دبوچ لیا اور اس عہد کے ترقی یافتہ انسان نے عدم تحفظ کے احساس سے فرار حاصل کرنے کے لیے ہیرون، ایل ایس ڈی، راکٹ، چرس ، مینڈرکس جیسی چیزیں ایجاد کرلیں اور عام آدمی ایک الجھن سے نکلنے کے لیے دوسری ہزاروں الجھنوں میں مبتلا ہو گیا۔ جب کہ مسلمان اس لیے ذلیل و خوار ہے کہ ان کا بھی کوئی عمل کاروباری تقاضوں سے باہر نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پستی سے مراد صرف یہ ہے کہ آدمی نماز روزے سے غافل رہے اور عروج یہ ہے کہ آدم زاد ثواب کی گٹھریاں باندھتا رہے۔باوجود یہ کہ اربوں ، کھربوں، سینکڑوں نیکیوں کے انبار ان کے پاس موجود ہیں ، لیکن وہ روشنی میسر نہیں ہے جو روشنی مسرت و شادمانی بن کر لہر کی طرح خون میں دوڑتی ہے، جس بندہ کے پاس نیکیوں کا جتنا دبڑا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ وہی سکون سے اتنا ہی دور ہے، ایک خشکی ہے جو آکاس بیل کی طرح اس کے وجود کو چمٹ گئی ہے۔ قنوطیت ہے کہ جس نے ہشت پا کی طرح انہیں دبوچ رکھا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بندہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ، اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اور اپنی دانائی کے ساتھ فتنوں سے قریب ہونا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ! ہر وہ چیز جو عارضی ہے حقیقت نہیں ہوتی اور جو چیز حقیقی نہیں ہے وہ حق سے قربت حاصل نہیں کرسکتی ۔
___________
روحانی ڈائجسٹ: ستمبر ۰۴
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔