Topics
یہ عمر ہے کیا اس کا
بیاں کیوں کر ہو
جس لمحہ پر
آسمان زمین ٹکڑے ہوں
وہ لمحہ پیچیدہ عیاں کیوں کر ہو
تشریح!
ہم جب ماضی میں کئی سال ہوئے اعمال اور زندگی کے افعال اور کردار کا تجزیہ
کرتے ہیں تو وقت کی طنابیں کھینچ جاتی ہیں، احساس ٹھہر جاتا ہے، سپیس سمٹ جاتی ہے،
بچپبن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا ۔ محسوس ہوتا ہے کہ کل کی بات ہے۔ جیتے رہتے
ہیں مگر جینا مرنا ہوتا ہے، اور ہر مر زندگی ہے، جینے مرنے کی بھول بھلیوں میں
ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ عمر کا کتنا حصہ گزر ا ہے، رات دن کا مشاہدہ ہے کہ
عمر کا تعین کوئی یقینی امر نہیں ہے، کوئی پیدا ہوتےہی مرجاتا ہے اور موت روٹھ
جاتی ہے، تو تمنا کرنے سے بھی قریب نہیں آتی ، ہر انسان زمین، آسمان کا تذکرہ
کرتا ہے، اپنی عقل و شعور کے مطابق زمین اور آسمان کے بارے میں تاثرات بیان کرتا
ہے، زمین کو اپنے لیے آرام و آسائش اور راحت کا گہوارہ سمجھتا ہے، لیکن یہی راحت
کا گہوارہ اس کو اپنے اندر سمیٹ کر اس طرح ینست و نابود کر دیتا ہے کہ نشان بھی
باقی نہیں رہتا۔ جس طرح آج کا انسان ہر لمحہ ٹوٹ رہا ہے، بکھر رہا ہے، اسی طرح ایک دن زمین و آسمان بھی ٹوٹ کر بکھر
جائیں گے، اور یہ ایسا پیچیدہ لمحہ ہے کہ جو کسی طرح عیاں نہیں ہوتا ، ناقابل
تذکرہ چھوٹی سی عمر میں یہ پیچیدہ لمحہ (قیامت) عیاں نہیں ہوتا لیکن اگر انسان اس
عمر کو تلاش کرلے جو عمر وقفوں اور لمحوں کی پابند نہیں ہے تو پیچیدہ لمحات اس کے
اوپر ظاہر ہوجاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔