Topics
مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس
جاگیر ہے پاس ان کے فقط ایک قیاس
ٹکڑے جو ہیں قیاس کے،
مفروضہ ہیں
ان ٹکڑوں کا نام ہم
نے رکھا ہے حواس
تشریح ! موجودہ سائنس نے تجربات ، مشاہدات اور تفکر سے یہ جان لیا ہےکہ دنیا میں موجود ہر شے روشنی کے غلاف میں لپٹی ہوئی ہے، جب تک روشنی کا غلاف جسم کے اوپر موجود رہتا ہلے، زندگی متحرک رہتی ہے، اور جب روشنی کا غلاف فضاء میں تحلیل ہوجاتا ہے تو زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے، روشنی کی رفتار کے بارے میں قیاس آرائی کی گئی ہے، اس کو بنیاد بنا کر جب ہم کوئی نتیجہ مرتب کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ ہر موجود شے کی زندگی لہروں پر قائم ہے، یہ لہریں محوری اور طولانی گردش میں سفر کرتی رہتی ہیں، روشنیوں اور لہروں کایہ سفر ہی قیاس اور حواس کا پیش خیمہ ہے۔ جس طرح ایک آدمی ایک درخت روشنیوں اور لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے، اسی طرح ہماری فضا بھی روشنیوں اور لہروں سے معمور ہے، فضا میں دور کرنے والی یہ لہریں سانس کے ذریعہ ہمارے اندر داخل ہوتی ہیں، ان لہروں کے داخل ہونے کے بعد انسانی انا کی اپنی لہریں مضروب ہوکر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔یہ ٹکڑے جب جوڑے جاتے ہیں تو حواس بن جاتے ہیں ۔ لہروں کے نظام پر قائم سانس جب تک موجود ہے قیاس، مفروضات اور حواس سب ہی موجود ہیں اور جب اندرونی نظام سانس رک جاتا ہے تو سارا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔
________________
روحانی ڈائجسٹ: دسمبر
: ۸۴
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔