Topics
اے کاسہ گر اک سر بھی ہے تیری املاک
ہشیار کہ اک دن تجھے ہونا ہے ہلاک
یہ کاسہ سر شاہ کی مٹی کا ہے
تو آگ میں ڈالتا ہے جس کو بے باک
تشریح! دنیا کی بے بضاعتی کا حال بیان کرتے ہوئے قلندر باباء ؒ فرماتے ہیں!
تمہیں کچھ معلوم بھی
ہے کہ کمہار نے مٹی سے پیالہ بنا کر آگ میں ڈالا ہے یہ کسی شہنشاہ وقت کی مٹی ہے
، شہنشاہ اپنی عظمت و جبروت ، شان اور دبدبہ کےباوجود مرگیا اور مرنے کے بعد قبر
کی اندھیری کوٹھری میں ماورائی پروسس کے تحت بادشاہ کاایک ایک عضو مٹی کے ذرات میں
تبدیل ہوگیا ۔ کمہار نے اس مٹی کو گوندھ کر پیالہ بنادیا اور پھر اسے پکانے اور
رنگ و روغن سے آراستہ ٍ کرنے کے لیے آگ میں ڈال دیا۔
اے انسان ایک روز تو
بھی اپنی تمام رعنائیوں اور کبر و نخوت کے
سفلی کردار کے ساتھ مر جائے گا تو بھی مٹی بن جائے گا اور کون جانے کہ تیرے سر کے
ساتھ کیا عمل ہو، وہ شراب کا پیالہ بنتا ہے یا مسجد کی محراب۔۔۔۔۔۔۔[1]
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔