Topics
یہ ریت کی دنیا ہے عجب افسانہ
بت ریت کے ہیں ریت کا ہے
بت خانہ
گھنٹے کی صدا ریت کے اندر گم ہے
گویا کہ ہوئی صدا بھی اک ویرانہ ہے
تشریح! جب کسی انسان کے اندر تفکر کا پیٹرن بن جاتا
ہے تو اس کے ہر عمل میں گہرائی پیدا ہو
جاتی ہے ایک عام آدمی ریت پر سے گزرتا ہوا چلا جاتا ہے لیکن جس آدمی کے اندر تفکر
ہوتا ہے وہ ریت کے اندر چمکدار ذرات پر غور کرتا ہے اور ریت کی یہ روپہلی چمک اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ
انسان کی طرح ریت کا زرہ بھی جاندار ہے، پرکشش ہے، اور انسان سے کچھ کہنا چاہتا
ہے، ریت کے یہ سارے ذرات اپنی چمک دمک سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری بھی ایک
دنیا ہے اور یہ دنیا بھی انسان کی دنیا کی طرح ایک افسانہ ہے۔ ریت کے ذرے بولتے
ہیں ہم فنا کے مراحل میں ہیں ، ایک وقت تھا بہت بلند اور ارفع و اعلی سرسبز و
شاداب پہاڑوں پر ہمارا حجم منوں اور ٹنوں کے حساب سے تھا، وہاں سے ایک ذرہ جو کئی
کئی ہزار ٹن وزنی تھا، اپنے قبیلے سے، اپنے ماحول سے، اپنی جنم دھرتی سے الگ ہوا
اور پانی کے طوفانی ریلوں نے اسے وہاں سے لڑھکا دیا۔ وہاں سے لڑھکتے لڑھکتے، ٹوٹتے
ٹوٹتے، ریزہ ریزہ ہوتے ہوتے ہزاروں میل کی صعوبتیں برداشت کر کے سمندر میں آگرا۔
اےانسان! تو جو ریت کا ایک ذرہ دیکھ رہا ہے، یہ دراصل اپنی اصل میں ایک پہاڑ ہے، جو ٹوٹ کر بکھر بکھر کر ریت کے ذرات میں تبدیل ہوگیا، یہ ریت کیا ہے؟ مٹی ہے۔ یہی وہ مٹی ہے جو کبھی پہاڑ بن جاتی ہے، یہی وہ مٹی ہے جو کبھی چٹان بن جاتی ہے، یہی وہ مٹی ہے جو کبھی محراب و ممبر اور بت خانہ بن جاتی ہے، جب بت، بت خانہ اور محراب و ممبر ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو ریت کے ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، گھنٹے کی صدا ہو، ناقوس کی آواز ہو یا آدم کی اذان ہو، سب ریت کے ایک گھروندے پر قائم ہیں، ریت کے گھروندے میں کوئی ہستی چھپی ہوئی بیٹھی ہے، ہستی کا ادراک ہو جائے تو دنیا ہے، ہستی کا ادراک نہ ہو تو ہر چیز ریت کے اندر گم ہے، گویا گھنٹے کی صَدا بت، بت خانہ سب ویرانہ ہے۔
__________
روحانی ڈائجسٹ: جولائی 2002
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔