Topics
اب دیکھنا
کیا ہے کربلا کے اندر
سب دیکھ لیا جو تھا بقا کے اندر
افلاک سے ہوتی ہیں بلائیں نازل
شاید کوئی دنیا ہو فضا کے اندر
تشریح: اس
رباعی میں حضور بابا ؒ نے خیر و شر یا جزا و سزا کی بنیاد پردنیا کو دو
حصوں میں تقسیم کیا ہے، اول کربلا کی دیا یعنی بظاہر فنا ہوکر نقش دوام حاصل کرنے والی
بقا کی دنیا اور دوسری بظاہر باقی نظر آنے والی مگر ہر بلا اور اذیت میں گرفتا
فنا کی دنیا، کربلا اس عظیم الشان امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بقا کا راستہ ہمت و
استقلال کے ساتھ حق و صداقت کی خاطر عدیم المثال قربانی و ایثار کی منزل سے گزر کر
ہی ملتا ہے اور جو قوم یا فرد اس منزل سے نہ گزرے اور کم ہمتی اور انجام کے خوف کی
بنا پر عیش دو روزہ کو نشاط دوام سمجھنے کی فریبی میں مبتلا ہوکر راہ فرار اختیار
اسے بقا کا مقام حاصل ہو ہی نہیں
سکتا۔ جو قوم کربلا کی آزمائش سے جتن دور
ہے وہ فنا اور تباہی سے اتینی قریب ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ فرماتے ہیں کہ
بقا کا راز کربلا کے پس منظر اور مابعد آثار و حوادث پر غور فکر کرنے ہی سے
آشکارہوسکتا ہے، جس نے اس راز کو پالیا اس نے گیویا بقا راستہ تلا ش کرلیا۔
اب رباعی کا دوسرا
رخ ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہے کہ جو معاشرہ ایثار و قربانی کے جذبے سے عاری ہے اور جسے حیات دوام کے رنگین خواب نے جکڑ رکھا
ہے ، فنا سے ہر لمحہ قریب تر ہوتا جا رہا ہے، ہماری مادی دنیا میں ہرآن اور ہر
ممکن قدرت کو تلپٹ کردیا جائے ، یہی آسمان سے بلاڑین نازل ہونے اور دنیا کے یک
لخت مٹ کر فنا ہوجانے کی علامت بلکہ دعوت ہے، جب تک موجود ذہنی اور علمی کیفیات
باقی رہیں گی یا ان کو بصد اصرار باقی
رکھنے کااہتمام کیا جاتا رہے گا۔
"اس بافراغت
اور روشن دنیا" کی فضا میں بلا اور فنا کی نظر نہ آنے والی تلوار لٹکتی رہے
گی۔
"کیا ان لوگو ں
نے یہ سمجھ رکھا ہے اکہ انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمائش کی
سختیوں سے نہیں گزرنا پڑے گا۔" (آیات قرآنی کا مفہوم)[1]
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔