Topics

ہمشیرہ حضرت حسین بن منصورؒ

تاریخ میں مشہور بزرگ حضرت حسین بن منصور حلاجؒ کی بہن روحانیت میں بلند مقام رکھتی ہیں۔ گھریلو مصروفیات کے بعد رات کو آبادی سے دور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتی تھیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد انوار و برکات اور فیض و انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تعلیمات کا سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔

حضرت حسین بن منصورؒ نے ایک دن دیکھا کہ ’’مرد غیب‘‘ پیالے میں کوئی چیز ان کو پلا رہا ہے۔ حضرت منصورؒ نے کہا، بہن! کچھ مجھے بھی عنایت کیجئے ۔ فرمایا: ’’منصور اس فیض ربانی کو برداشت نہیں کر سکوگے۔‘‘

حضرت منصور نے اصرار کر کے اس پیالے میں سے پی لیا۔ بعد ازاں ’’اناالحق‘‘ کی صدا لگانے پر حضرت حسین بن منصورؒ کو سنگسار کر دیا گیا۔

سنگسار کرتے وقت بہن نے کہا:

’’بھائی! مجھے معلوم تھا کہ تیرے ساتھ یہ واقعہ رونما ہو گا۔ لیکن میں نے تجھے اس لئے منع نہیں کیا کہ تو حقیقت سے واقف ہو جائے۔ اگر تو صبر سے کام لیتا تو تیرے اندر ’’راز‘‘ برداشت کرنے کی سکت پیدا ہو جاتی۔

مجھے دیکھ کہ میں بیس سال سے ہر رات ایک پیالہ پیتی ہوں لیکن برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔‘‘

آپؒ چلتے پھرتے انوار و تجلیات کے مشاہدے کرتیں۔ کبھی کبھار استغراق طاری ہو جاتا۔ اس کیفیت میں جو بات منہ سے نکل جاتی حرف بہ حرف پوری ہوتی۔ آپ اکثر فرمایا  کرتیں۔ ’’دوست کی خوشبو مجھے مست و بے خود رکھتی ہے۔‘‘

حکمت و دانائی

* ہمت سے مردہ قوم بھی زندہ ہو جاتی ہے۔

* ناکامیوں پر غور کرنے سے کامیابی کا زینہ تعمیر ہوتا ہے۔

 ایمان سادگی اور قناعت سے پیدا ہوتا ہے۔

* جب تک کسی شخص سے معاملہ نہ پڑے اس کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔

* اچھے حسن کے ساتھ اچھے اخلاق کی بھی دعا کرنی چاہئے۔

* مستقل مزاجی سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے۔ اور سست الوجود آدمی کو کنکر بھی پہاڑ لگتا ہے۔

* خود غرض لوگ غلام بن جاتے ہیں۔

* مزاج پرسی آداب مجلس میں شامل ہے۔

* عقل گناہ کے وقت مخالفت نہیں کرتی۔ بصیرت ضمیر کو زندہ رکھتی ہے۔

* تجربہ بہترین معلم ہے۔

* ’’تفکر‘‘ بہتر نتائج کی کنجی ہے۔

* امید کے سہارے جینا اور عمل نہ کرنا خود فریبی ہے۔

* مصائب پریشان کرنے کے لئے نہیں بیدار کرنے کے لئے آتے ہیں۔

* دوست کی خوشبو مست و بے خود رکھتی ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔