Topics

بی بی مریم فاطمہؒ

بی بی مریم فاطمہؒ کو بارگاہ اقدسﷺسے خصوصی فیض نصیب ہوا۔ اللہ کی بے شمار مخلوق اس فیض سے سیراب ہوئی، پریشان حال لوگوں نے آپﷺ سے سکھ چین پایا، بے اولاد خواتین کو اولاد کی نعمت عطا ہوئی، آپؒ استغراق کی کیفیت میں جو بات کہہ دیتی تھیں وہ حرف بہ حرف پوری ہو جاتی تھی۔ دم، دعا، درود کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ خدمت خلق کے علاوہ آپؒ گوشہ نشین ہو کر اللہ سے راز و نیاز میں مصروف رہتیں، کئی دفعہ حالت بیداری میں حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئیں۔ شب بیدار، زندہ دل خاتون تھیں۔

ایک دل گرفتہ خاتون ان کے پاس آئیں جو بے اولاد تھیں۔ کوئی اندرونی بیماری تھی اس کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرتا تھا۔ ہر حکیم، طبیب کا علاج کر اچکی تھیں۔ خاتون پر امید ہو کر بی بی مریمؒ کے پاس آئیں۔ بی بی صاحبہؒ نے مراقبہ کیا اور خاتون کی اولاد کی بشارت دی۔ بی بی مریمؒ کی بشارت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جڑواں بچیاں عطا فرمائیں۔

خدمت خلق کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کے لئے بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ اپنے پاس آنے والے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ارشادات بھی سناتے ہیں۔ اس طرح دعا کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی از خود اہتمام ہو جاتا ہے۔

ولی اللہ خاتون مریمؒ نے فرمایا:

’’ماں باپ اگر دونوں اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونگے۔ گھر تعلیم و تربیت کا پہلا اسکول بن جائے گا، مرد کے اوپر فرض ہے کہ بیوی اور بچوں کی تمام ضروریات پوری کرے۔ عورت کے اوپر فرض ہے کہ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائے رکھے۔ دونوں کو چاہئے کہ اپنے قول و عمل اور انداز و اطوار سے ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا یہی راز ہے اور خدا کو خوش رکھنے کا ذریعہ بھی۔

اللہ تعالیٰ آپ کو جو اولاد دیتا ہے اس کو کبھی ضائع نہ کریں۔ پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے بعد اولاد کو ضائع کرنا بدترین سنگدلی، بھیانک ظلم، انتہائی بزدلی اور دونوں جہانوں کی تباہی ہے۔ ولادت کے وقت ماں بننے والی عورت کے پاس آیت الکرسی اور سورہ اعراف کی آیات ۵۴،۵۵ پڑھیں، سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھ کر دم کریں، ولادت کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں۔ اذان اور اقامت کے بعد کسی نیک مرد یا نیک عورت سے کھجور چبوا کر بچے کے تالو میں لگوائیں اور بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا کروائیں۔ ساتویں دن عقیقہ کریں۔

اولاد کو ہر وقت سخت سست اور برا نہ کہیں بچہ ڈانٹ ڈپٹ کو روزانہ کا معمول سمجھنے لگتا ہے۔ بچے نادان ہوتے ہیں ان کی کوتاہیوں پر بیزار ہونے کے بجائے یہ سوچیں کہ آپ بھی ان ہی کی طرح بچے تھے اور آپ سے بھی بے شمار کوتاہیاں سرزد ہوئی تھیں۔ نفرت کا اظہار کرنے کے بجائے حکمت، تحمل اور بردباری سے ان کو سمجھائیں۔ ان کو یہ تاثر دیں کہ آپ ان کے دوست ہیں۔ ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیریں۔ بچے وہی کچھ کرتے ہیں جو ماں باپ کرتے ہیں۔ بچے وہی زبان بولتے ہیں جو ماں باپ بولتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچے بن کر کھیلئے۔ رسولﷺ کی پشت مبارک پر حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سوار ہو جاتے تھے اور حضورﷺ کی زلفیں پکڑ کر کھینچتے تھے اور حضورﷺ سے فرمائش کرتے تھے:

’’نانا! اونٹ کی آواز نکالیں۔‘‘

حضورﷺ خوشی خوشی بچوں کی فرمائش پوری کرتے تھے۔

بچوں کی تعلیم کا اچھا انتظام کرنا ضروری ہے تا کہ وہ معاشرے میں بہترین مقام حاصل کریں اور دین کی خدمت کریں، بزرگوں کا احترام کریں اور اپنے سے چھوٹے بچوں سے محبت کریں۔‘‘

حکمت و دانائی

* اللہ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔

* مومن کی پوری زندگی مہم جوئی اور جدوجہد ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔