Topics

بی بی فاطمہ بنتِ المثنیٰ ؒ

ابن عربی کہتے ہیں کہ میں نے سالہاسال حضرت فاطمہؒ کی خدمت کی ہے۔ ان کی عمر پچانوے(۹۵) سال سے زیادہ تھی لیکن مجھے ان کی طرف دیکھنے سے شرم محسوس ہوتی تھی کیونکہ چہرے کی تروتازگی کے باعث وہ خوبرو جوان نظر آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ابن عربی سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’لوگ خدا کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور روتے پھرتے ہیں۔ اللہ کی قربت اور محبت تو یہ ہے کہ وہ جس حال میں رکھے بندہ خوش رہے۔‘‘
ایک دن ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:

’’میرا شوہر دوسرے شہر میں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ دوسرا نکاح نہ کر لے۔ آپ دعا کریں کہ وہ یہاں آ جائے۔‘‘

بی بی فاطمہ نے کہا:

’’بہت اچھا۔‘‘ اور یہ کہہ کر ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھنی شروع کی۔ ابن عربی بھی وہیں موجود تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک روح ان کے سامنے آئی۔ بی بی فاطمہؒ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’اس عورت کا خاوند لے آ۔‘‘

کچھ عرصے کے بعد وہ شخص آ گیا۔ عورت خوشی خوشی آپ کے پاس آئی اور شوہر کے آ جانے کی خوشخبری سنائی۔

آپ نے اسے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’شوہر پردیس سے آئے تو مزاج پوچھو۔ خیریت دریافت کرو کہ وہاں کس طرح رہے۔ ہاتھ منہ دھونے کے لئے پانی دو۔ کھانے کا بندوبست کرو۔ گرمی کا موسم ہو تو پنکھا جھلو۔ غرض اس کی راحت اور آرام کی باتیں کرو۔‘‘

بی بی فاطمہؒ نے عورت سے پوچھا:

’’تمہارے ساس سسر ہیں۔ کیا ساتھ رہتے ہیں؟‘‘

عورت نے کہا:

’’جی ہاں! ساس سسر میرے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘

فرمایا:
’’جب تک ساس سسر زندہ رہیں ان کی خدمت کرو۔ جب تم ساس بنو گی تو قدرت بہو سے تمہاری خدمت کرائیگی۔ بزرگوں سے ادب لحاظ رکھو۔ چھوٹوں پر مہربانی اور بڑوں کا ادب کیا کرو۔‘‘

حکمت و دانائی

* اللہ سے محبت یہ ہے کہ وہ جس حال میں رکھے بندہ خوش رہے۔

* اللہ سے محبت رکھنے والے روتے نہیں ہیں۔ راضی بہ رضا رہتے ہیں۔

* آدمی جب دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اسے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ اور دوزخ اس کے قریب نہیں آتی۔ 

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔