Topics

بی بی علینہؒ

حضرت بی بی علینہؒ میں بچپن ہی سے بزرگی کے آثار نظر آتے تھے۔ زیادہ تر خاموش رہتی تھیں، روزہ رکھنے کا بہت شوق تھا، چہرے پر ہر وقت ایک دل آویز مسکراہٹ رہتی تھی۔ کسی کا دل نہیں دکھاتی تھیں۔ ماں باپ کی انتہائی فرمانبردار تھیں۔ باپ کی خدمت سے بہت راحت ملتی تھی۔

بارہ تیرہ سال کی عمر میں گھر کے ایک گوشے میں تنہا بیٹھی سوچ میں غرق تھیں کہ یکایک ایک حسین و جمیل شخص ظاہر ہوا، بی بی علینہؒ گھبرا گئیں۔ شخص نے تسلی دے کر کہا کہ میں تمہیں خوشخبری سنانے آیا ہوں۔

’’کل اسی وقت اس کمرے میں تمہیں آنحضرتﷺ، بی بی فاطمتہ الزہرہؓ اور حضرت امام حسینؓ کی زیارت ہو گی۔‘‘

علینہ بی بیؒ نے یہ بات اپنی والدہ کو بتائی تو والدین بہت خوش ہوئے۔

دوسرے دن والدہ نے نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنائے، خوشبو لگائی اور کمرے میں بٹھا دیا۔ اللہ کی رحمت سے بی بی علینہؒ کو تینوں بزرگوں کی زیارت ہوئی۔ تینوں بزرگوں نے بی بی علینہؒ کو پیار کیا، سیدنا حضورﷺ نے کوئی میٹھی چیز عطا فرمائی۔

بہت ساری خواتین آپ کی دوست تھیں ایک مرتبہ اچھے دوست کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

’’اچھا دوست وہ ہے جو دوستوں کے احتساب کرنے پر خوش ہو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔‘‘

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ

’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے پس اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
آئینہ کی شان یہ ہے کہ جب کوئی آدمی آئینہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو آئینہ تمام داغ دھبے اپنے اندر جذب کر کے نظر کے سامنے لے آتا ہے اور جب آدمی آئینہ کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو آئینہ اپنے اندر جذب یہ داغ دھبے یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ایک بار منبر نشین ہو کر بلند آواز میں فرمایا:

’’مسلمان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہوتا ہے تو خدا اس کے پیچھے ہوئے عیوب کو طشت ازبام کر دیتا ہے اور جس کے عیب افشاں کرنے پر خدا متوجہ ہو جائے تو اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر گھس کر بیٹھ جائے۔

حکمت و دانائی

* اسلام کے اصولوں پر عمل کر کے ہم اپنے گھر کو سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

* خیالات اچھے یا برے ہوتے ہیں آدمی اچھا برا نہیں ہوتا۔

* اگر کوئی کسی کی غیبت کرتا ہے تو اس کا خون پیتا ہے۔ 

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔