Topics
حضرت آمنہ رملیہؒ بغداد کے ایک نواحی شہر
رملہ میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے ذہین اور علم حاصل کرنے کی شوقین تھیں۔ جب بڑی
ہوئیں تو والدہ کے ساتھ حج کے لئے مکہ معظمہ گئیں۔ وہاں ایک بزرگ مسجد میں درس دیا
کرتے تھے۔ حضرت آمنہؒ ان کی شاگرد ہو گئیں۔ اور ان سے قرآن اور احادیث کا علم حاصل
کرتی رہیں۔
بزرگ کے انتقال کے بعد حضرت آمنہ رملیہؒ
مدینہ منورہ آ گئیں۔ مدینہ میں امام مالکؒ کی شاگرد بن گئیں۔ ان سے تقریباً
سو(۱۰۰) احادیث مروی ہیں۔
تحصیل علم کے بعد مدینہ منورہ سے دوبارہ مکہ
معظمہ آ گئیں اور امام شافعیؒ کی شاگرد ہو گئیں۔ اس وقت ان کی عمر ۳۶ سال تھی۔ جب
امام شافعیؒ مصر تشریف لے گئے تو آپ کوفہ چلی گئیں۔ حضرت آمنہؒ نے ذوق و شوق سے
وہاں کے علماء سے بھی کسب فیض کیا اور تمام علوم دینی میں ماہر ہو گئیں۔ جب کوفہ
سے وطن واپس آئیں تو ان کے علم و فضل کا چرچا دور دور تک پھیل چکا تھا۔ انہوں نے
علم پھیلانے کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا۔ جہاں علم کے متلاشی لوگ جوق در جوق آنے
لگے۔ بڑے بڑے علماء حدیث، درس میں شریک ہوئے تھے۔
بغداد میں ایک درویش کامل کی توجہ نے ان
کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ آپ نے اپنا مال و اسباب راہ خدا میں لٹا دیا اور
درویشانہ زندگی اختیار کر لی۔ زیادہ وقت عبادت الٰہی اور گریہ و زاری میں مشغول
رہتیں۔
حضرت آمنہؒ نے پیدل چل کر سات حج کئے۔ ان
کے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی بناء پر لوگ ان کو خاصان خدا میں شمار کرتے
تھے اور ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔
عظیم المرتبت ولی اللہ حضرت بشرحانیؒ ان
کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت احمد بن حنبلؒ بھی ان کی عظمت و جلالت کے
معترف تھے۔
ایک دفعہ حضرت بشرحانیؒ بیمار ہوئے تو
حضرت آمنہؒ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئیں۔ امام احمد حنبلؒ بھی وہاں موجود
تھے۔ انہوں نے حضرت بشرحانیؒ سے پوچھا:
’’یہ خاتون کون ہیں؟‘‘
بشرحانیؒ نے جواب دیا:
’’یہ آمنہ رملیہؒ ہیں۔ مزاج پرسی کے لئے
آئی ہیں۔‘‘
امام صاحبؒ نے ان کی شہرت سن رکھی تھی ان
سے مل کر بہت خوش ہوئے اور حضرت بشرحانیؒ سے فرمایا:
’’ان سے کہئے کہ میرے لئے دعا کریں۔‘‘
حضرت بشرؒ نے حضرت آمنہؒ سے عرض کیا:
’’یہ احمد بن حنبلؒ ہیں۔ آپ سے دعا کے
خواستگار ہیں۔‘‘
حضرت آمنہؒ نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خشوع و
خضوع سے دعا مانگی۔
’’اے اللہ! احمد بن حنبلؒ اور بشرؒ دونوں
جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ان کو اس آگ سے
محفوظ رکھ۔‘‘
ایک دفعہ کسی رئیس نے دس ہزار اشرفیاں آپ
کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے انکار کر دیا۔ جب بہت اصرار کیا تو رکھ لیں اور منادی
کرا دی کہ جس کو روپے کی ضرورت ہو وہ مجھ سے لے جائے۔ چنانچہ حاجت مند لوگ آتے تھے
اور بقدر ضرورت رقم لے جاتے تھے۔ شام تک تمام اشرفیاں ختم ہو گئیں۔
حضرت بشرحانیؒ فرماتے ہیں کہ آمنہؒ کا
معمول تھا کہ پوری رات سے صبح تک عبادت الٰہی میں مصروف رہتیں۔ ایک مرتبہ آپ نے
حضرت بشرحانیؒ سے فرمایا:
’’اے بشر! میرا جسم سوتا ہے لیکن میرا دل
بیدار رہتا ہے۔‘‘
* ولی سوتا ہے اس کا دل بیدار رہتا ہے۔
* علم پھیلانے کے لئے ہر قسم کی کوشش کرنا
فرض ہے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔