Topics
آپا جیؒ میری ماں ہیں اور نام امت الرحمان
ہے۔ میری ماں نہایت عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں، سات وقت کی نمازی تھی نذر و نیاز
بہت کرتی تھیں۔ گھر میں ہر ماہ کسی نہ کسی بزرگ یا امام کی فاتحہ ہوتی تھی، ڈیوڑھی
میں مہمان خانہ بنایا ہوا تھا۔ بلاتخصیص کوئی بھی شخص تخت پر آ کر بیٹھ جاتا تھا
مہمان کو تازہ روٹی پکا کر کھلاتی تھیں۔ مہمانوں کا راشن ایک الماری میں مقفل رہتا
تھا۔ الماری اس وقت کھلتی تھی جب مہمان آئے یا اس میں سامان رکھا جائے۔ ہر کام میں
اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں، بڑی بیٹی آمنہ خاتون کا ہسپتال میں انتقال ہو گیا۔
خالہ زاد بہن نے بیٹی کے انتقال کی خبر دی تو فوراً کہا۔ ’’یا اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
کچھ توقف کے بعد رونے لگیں۔
بڑی بھابی نے اپنا خواب اس طرح سنایا۔ میں
نے خواب میں دیکھا کہ تہجد کی نماز کے لئے وضو کرنے جا رہی ہوں کہ یکایک روشنی
پھیلی اور پھر نور کا جھماکہ ہوا اور میں نے دیکھا کہ میرے آقاﷺ، میری جان ان پر
فدا ہو، میرے سامنے کھڑے ہیں۔
میں نے کہا۔ السلام علیکم! یا رسول اللہﷺ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ وعلیکم السلام۔ پھر دریافت فرمایا:’’امت الرحمٰن کہاں
ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ!وہ سامنے والے کمرے میں سو رہی ہیں۔ میں
ابھی جگاتی ہوں۔ حضور پرنورﷺ نے فرمایا:’’نہیں۔ سونے دو جب اٹھ جائے تو کہہ دینا
مرتضیٰﷺ آئے تھے سلام کہہ گئے ہیں۔‘‘
مؤلف کتاب ’’اولیاء اللہ خواتین‘‘ خواجہ
شمس الدین عظیمی نے خواب میں دیکھا کہ مٹی کا بنا ہوا ایک کچا گھر ہے۔ چار دیواری
پر چکنی مٹی پتی ہوئی ہے۔ وہاں سیدناﷺ ایک خاتون سے خوش ہو کر باتیں کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی میری والدہ آپا جی کھڑی ہیں اور میں اس وقت سات آٹھ سال کا بچہ ان کے قریب
کھڑے ہو کر نہایت حیرت کے ساتھ حضورﷺ کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ خاتون
کتنی خوش نصیب اور مقدس ہیں کہ حضورﷺ ان سے محبت سے بات کر رہے ہیں میرا یہ خیال
حضورﷺ تک پہنچ گیا۔
حضورﷺ نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور
فرمایا:
’’میاں یہ خاتون بی بی خدیجہ ہیں۔‘‘
یہ سن کر بی بی خدیجہؓ نے فرمایا:
’’یا رسول اللہﷺ! یہ عورت‘‘ (آپا جی کی
طرف اشارہ کر کے کہا) اس کی ماں ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ہاں میں جانتا ہوں یہ امت الرحمٰن ہے
اور بہت صابرہ ہے۔‘‘
آپا جی مولانا خلیل احمد احمد صاحب
سہارنپوری سے بیعت ہوئیں۔ بیعت ہونے کے بعد مرشد کریم کی خدمت میں عرض کیا:
’’یا حضرت آپ نے سب کو سبق دیا ہے، پڑھنے کو تسبیحات اور نفلیں تلقین کی ہیں، مجھے
کچھ نہیں بتایا۔‘‘
حضرت سہارنپوری نے فرمایا:
’’تیرا سبق یہ ہے کہ تو بچوں کی صحیح
تربیت کر دے اور اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کر دے تو میرا کام کر دے میں تیرا حق
تجھے پہنچا دونگا۔‘‘
ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی یہ کہتا تھا کہ میں فلاں چیز نہیں کھاتا۔ آپا جی کہہ
دیتی تھیں:
’’جاؤ کھیلو تمہیں بھوک نہیں ہے۔‘‘
بچے ضد کرتے تھے مگر آپا جی وہی کھانا
کھلاتی تھیں جو گھر میں موجود ہوتا تھا۔ البتہ اگلے روز یا شام کو بچے کی فرمائش
پوری کر دیتی تھیں۔
رات کو تہجد کے بعد اپنے پیر کی شان میں قصیدے پڑھتی تھیں اور بے قرار ہو کر روتی
تھیں۔ میں نے ایک روز پوچھا:
’’آپا جی آپ کے پیر صاحب نے آپ کو کچھ دیا
بھی ہے؟‘‘
بولیں:’’بھائی میں نے اپنی ڈیوٹی پوری کر
دی۔ بچوں کی دیکھ بھال کر کے انہیں نیکی کے راستے پر چلایا۔ اللہ کا شکر ہے میرے
مرشد نے مجھے نواز دیا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’کیا نواز ش ہوئی؟‘‘
فرمانے لگیں:’’بس نواز دیا میں مطمئن ہو
اور خوش ہوں۔‘‘
میرے ابا جی دین دار آدمی تھے، شریعت اور
طریقت میں ان کی حیثیت ممتاز تھی، اکل حلال کا بطور خاص اہتمام کرتے تھے،
وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ ایک روز خیال
آیا کہ وکیل کی کامیابی اس میں ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر کے مقدمہ
جیت لے، آپا جی سے اس بات کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا:
’’اس طرح تو ہمارے بچوں کی تربیت صحیح
نہیں ہو گی۔ دونوں میاں بیوی نے متفق ہو کر فیصلہ کیا کہ وکالت کا پیشہ ترک کر دیا
جائے۔ حالات جب نامساعد ہو گئے تو لکڑی کی ایک ٹال پر ایک روپیہ روز اجرت پر
لکڑیاں پھاڑنے کی مزدوری شروع کر دی۔ اللہ نے یہ کرم کیا کہ درخت کی جانچ پڑ گئی
کہ اس درخت میں اتنی سوختہ لکڑی ہے، اتنے تختے نکلیں گے اور جڑوں میں اتنا کوئلہ
بن جائے گا۔ اس فن میں اس قدر مہارت ہو گئی کہ جنگل خریدنے والے ابا جی کی خدمات
حاصل کرتے تھے۔ وارے کے نیارے ہو گئے اور اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ پانچ حج
کئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حج پیدل کیا تھا جس میں پیر شدید زخمی ہو گئے تھے۔
آپا جی نے اپنے بچوں کے ساتھ دو بچوں کو
بھی دودھ پلایا اور ان کی پرورش کی ایک بچے کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔
الحمدللہ اب وہ بچہ اسلامک اسٹیڈیز میں Ph.Dہے اور اسے سیرت
طیبہ پرکتاب لکھنے پر صدارتی ایوارڈ ملا ہے۔ دوسرے بچے کی ماں بیمار تھی اس بچے نے
میرے (مولف کتاب کے) ساتھ دودھ پیا ہے۔ صبح، دوپہر، شام، رات بچے کی ماں اپنے شوہر
کے ساتھ بچے کو آپا جی کے پاس بھیج دیتی تھی اور آپا جی اسے دودھ پلا کر واپس ماں
کے پاس بھیج دیتی تھیں۔
میرے رضاعی بھائی عابد اللہ انصاری نے
پرنم چشم کے ساتھ شکاگو امریکہ میں مجھے اپنے دوستوں کی مجلس میں یہ واقعہ سنایا
تھا۔ محترم بھائی شمس الدین عظیمی صاحب کی والدہ ماجدہ نے میری پرورش کی ہے جب میں
نے ہوش سنبھالا تو کسی خاتون نے بتایا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے
یتیم سمجھ کر خالہ امت الرحمٰن نے دودھ پلایا ہے۔ میں روتا ہوا آپا جی کے پاس گیا
ان سے پوچھا میری ماں کون ہے؟ آپا جی بولیں۔’’میں تیری ماں ہوں۔‘‘ مجھے یقین نہیں
آیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا۔’’نہیں آپ میری ماں نہیں ہیں۔
میری ماں تو مر گئی ہے۔‘‘
آپا نے مجھے سینے سے لگا لیا اور اپنا
ہاتھ سامنے کر کے کہا۔’’دیکھ میرا ہاتھ سفید ہے تو بھی گورا ہے۔‘‘ اور اکبر(میرا
چھوٹا بھائی جس کے ساتھ عابد انصاری نے دودھ پیاہے) کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’دیکھ
اس کا رنگ سانولا ہے اس کی ماں مر گئی ہے میں نے اس کو گود لے کر دودھ پلایا ہے۔‘‘
مولف کتاب اولیاء اللہ خواتین کے ساتھ یہ
صورتحال ہے کہ مجھے جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے آپا جی خواب میں یا بیداری
میں روحانی طور پر میری مدد کرتی ہیں۔ میری ہمت بڑھاتی ہیں اور حوصلہ دیتی ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دربار اقدس و
اطہر میں حضرت قلندر بابا اولیاءؒ نے آپا جی کا تعارف بہن کے رشتے سے کرایا اور
سیدنا رسول اللہﷺ نے اس رشتے کو بڑی خوشی سے قبول فرما لیا۔
* ہر لڑکی ماں ہے
چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، بیوی ہو۔ اللہ نے اسے ذیلی تخلیق کے لئے بنایا ہے، اگر
بیوی اللہ کی عطا کردہ ماں کی صفات سے شوہر کی دیکھ بھال کرے تو شوہر کبھی بے
وفائی نہیں کرے گا۔
* کرایہ کا گھر
ٹوکرے میں گھر، دوسرے کا گھر تھوک کا ڈر، اپنا گھر ہگ ہگ کے بھر۔
* شوہر کے سامنے
کبھی اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہئے، شوہر خود دھیمی آواز میں بولنا شروع کر دے
گا صرف صبر و استقلال کی ضرورت ہے۔
* شوہر آدم کا قائم
مقام ہے اور بیوی حوا کی قائم مقام ہے۔
* عورت اور مرد کا
عمل خود اس کا نگہبان یا محاسب ہے۔
* اللہ کا شکر ادا
کرنے اور صبر کرنے سے سارے کام آسان ہو جاتے ہیں۔
* اولاد کی تربیت
کا دارومدار ماں کے کردار سے ہے۔
* عورت کو قدرت نے
یہ وصف بخشا ہے کہ جب وہ دل سے کسی کا انتخاب کر لیتی ہے تو ہر طرح کا ایثار کرتی
ہے اور ہر رکاوٹ کو پھلانگ جاتی ہے۔
* اچھی عورت مرد کی
عفت پر آنچ نہیں آنے دیتی۔
* ہمیشہ اللہ کو
اپنا محافظ سمجھو۔
* اولاد اور مال
فتنہ ہیں لیکن اگر مال اور اولاد کو اللہ کی امانت سمجھا جائے تو یہ دونوں جنت میں
جانے کا پروانہ ہیں۔
* درود شریف کثرت
سے پڑھو۔
* نماز قائم کرنے
میں سستی نہ کرو۔
* صفائی اور
پاکیزگی حسن میں اضافہ کرتی ہے۔
* جس گھر میں
مہمانوں کی خوش ہو کر تواضع کی جاتی ہے اس گھر میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
* ساس بہو کو دل سے
بیٹی بنا لے اور بہو دل سے ساس کو ماں سمجھ لے تو گھر میں فساد نہیں ہو گا۔
* سب سے بڑی
پریشانی چولہا چکی ہے، ساس کو چاہئے کہ بیٹے کی شادی کے بعد چولہا چکی سے آزاد ہو
جائے۔
* جس طرح بیوی کے
اوپر ساس کی خدمت فرض ہے اس طرح داماد پر بھی اپنی ساس کی خدمت فرض ہے، ہمارے
معاشرے میں یہ بہت بڑی نا انصافی ہے کہ بہو کے اوپر ساری ذمہ داریاں ڈال دی جاتی
ہیں کہ سسرال کی خدمت میں لگی رہے لیکن داماد کے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ
وہ بھی اپنی ساس کی خدمت کرے، پیر دبائے، سر میں تیل ڈالے، پیسے ٹکے سے ان کی خدمت
کرے۔
* مرید جب اپنی
ڈیوٹی پوری کر دیتا ہے تو مرشد اسے نواز دیتا ہے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔