Topics
مریم بی اماںؒ نے بابا تاج الدین اولیاءؒ
سے بے پایاں فیض پایا ہے۔ بابا تاج الدینؒ کے دربار میں آپؒ کو خصوصی مقام حاصل
تھا۔ بابا تاج الدینؒ آپ کو اماں کہہ کر پکارتے اور نہایت شفقت و عنایت فرماتے
تھے۔
مریم بی اماں صاحبہؒ جب پہلی بار باباتاج
الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو بابا صاحبؒ کھڑے ہو گئے اور قریب آ کر فرمایا:
’’ہم بہت دنوں سے تیرا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
یہ کہہ کر مریم بی اماںؒ کے دونوں ہاتھوں
کی چوڑیاں توڑ دیں اور کہا:
’’روزانہ آیا کر۔ غیر حاضری ہمیں منظور
نہیں ہے۔‘‘
ان دنوں بابا تاج الدینؒ پاگل خانے میں
تھے۔ مریم بی اماںؒ روزانہ حاضر ہوتیں اور پاگل خانے کے دروازے پر ایک مخصوص جگہ
کھڑی ہو جاتیں۔ رفتہ رفتہ اماں پر اتنی محویت اور استغراق طاری ہوا کہ کھانے پینے
اور وقت کا احساس ختم ہو گیا۔ اس حاضری میں ایک سال گزر گیا اور پھر بابا تاج
الدینؒ شکر درہ سے وا کی تشریف لے گئے۔ مریم بی اماںؒ بھی واکی تشریف لے گئیں اور
پاٹن وانگی میں قیام کیا۔ یہاں بھی روزانہ حاضری آپؒ کا معمول تھا۔ تقریباً ایک
سال تک اسی طرح مریم بی اماںؒ کی تربیت ہوتی رہی بعد ازاں مریم بی اماںؒ کے لئے
ایک جگہ مقرر کر دی گئی جہاں آپؒ رونق افروز ہوتیں۔ اس طرح وا کی شریف میں ایک
چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہو گیا۔ اور بابا تاج الدین کا فیض مریم بی اماںؒ کے
ذریعہ جاری ہو گیا۔ بابا صاحبؒ لوگوں کو مریم بی اماںؒ کے پاس جانے کا حکم دیتے
اور لوگ بامراد لوٹتے تھے۔ لوگوں کا کہنا ہے جو بات حضرت بابا تاج الدین اولیاءؒ
فرماتے تھے وہی بات بی اماںؒ فرماتی تھیں۔ مریم بی اماںؒ کی قدر و منزلت کا یہ
عالم تھا کہ بابا تاج الدینؒ نے حکم دیا تھا کہ یہاں آنے سے پہلے اماں صاحبہ کی
خدمت میں حاضری دی جائے۔ لاشمار لوگوں نے یہ عجیب بات بتائی کہ مریم اماںؒ کوئی
ہدایت یا نسخہ لکھ کر دیتی تھیں تو وہ بابا تاج الدینؒ کی تحریر سے مشابہ ہوتی
تھی۔
مریم بی اماںؒ فرماتی ہیں کہ
’’مرشد کریم نے برسوں کا راستہ دنوں میں
طے کروا دیا ہے اور سالہا سال مشقت کا کام آسان کر کر کے مجھ پر ولایت کا باب کھول
دیا ہے۔‘‘
ایک روز بابا تاج الدینؒ نے مریم اماںؒ کو
اپنے ساتھ لیا اور کنہاں ندی کے اطراف میں پہنچے۔ ایک ویران جگہ جو جنگلی جانوروں
کی گزرگاہ تھی۔ وہاں آپؒ رک گئے اور مریم بی اماں کو حکم دیا یہاں بیٹھ جاؤ اور
بلا اجازت نہ اٹھنا۔ مریم بی اماںؒ کچھ کہے سنے بغیر وہاں بیٹھ گئیں اور بابا تاج
الدینؒ واپس چلے گئے۔
مریم بی اماںؒ کو وہاں بیٹھے ہوئے ایک
ہفتہ گزر گیا ادھر بابا تاج الدینؒ کے خدام اور حاضرین یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ
بابا صاحبؒ نے ایک ہفتہ نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ مریم بی اماںؒ کے ساتھ آپ
بھی بھوکے پیاسے رہے۔
بابا تاج الدینؒ کے حکم سے عوام اپنے
مسائل کے لئے مریم اماں سے رجوع کرتے تھے۔ سورج نکلنے سے پہلے آنے والوں کا سلسلہ
شروع ہو جاتا اور رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ مریم بی اماںؒ ہر آنے والے کا مسئلہ
نہایت توجہ اور محبت کے ساتھ سنتیں اور مسئلے کا حل بتا دیتی تھیں۔ حاضرین میں
لاعلاج مریض بھی ہوتے تھے۔
ایک بار لوگ کسی مریضہ کو لائے جس کے ہاتھ
پیر نیلے پڑ گئے تھے اور ہاتھ پیروں کی جان نکل گئی تھی۔ مریم اماںؒ نے مریضہ کو
دیکھتے ہی فرمایا:
’’بچی کے گردے ختم ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اپنا انگوٹھا دونوں
گردوں کے بیچ میں رکھ کر چابی کی طرح گھمایا اس عمل سے گردوں کا عمل دوبارہ شروع
ہو گیا۔ مریضہ کے ٹھنڈے ہاتھ پیروں میں حرارت دوڑ گئی۔
کچھ ہندو ایک مریض کو چارپائی پر ڈال کر
بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں لائے لیکن بابا صاحبؒ اس وقت موجود نہ تھے۔ مریض کی
حالت لمحہ بہ لمحہ خراب ہوتی جا رہی تھی۔ کسی نے کہا۔ مریم اماںؒ کے پاس لے جاؤ۔
مریم اماںؒ کو بتایا گیا کہ مریض کو خون کا سرطان ہے۔ بمبئی کے ڈاکٹروں نے جواب دے
دیا ہے۔ یہ سن کر آپؒ اٹھیں اور موت اور زیست کی کشمکش میں گرفتار مریض کے قریب
پہنچ گئیں۔ مریض کی ماں نے آپؒ کو دیکھ کر دہائی دی، بھگوان کے لئے کرپا کرو میرا
ایک ہی بچہ ہے۔ مریم بی اماںؒ نے اسے دلاسا دیا اور فضا میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے
کہا ک"اسے چھوڑ دے" لوگوں کو محسوس ہوا کہ ایک ہیولیٰ مریض کے اندر سے
نکل کر ہوا میں تحلیل ہو گیا ۔ مریض نے سکون محسوس کیا اور بولا مجھے نیند آرہی ہے ، میں سونا چاہتا ہوں عزیز رشتے
دار خوشی سے رونے لگے ۔ کچھ عرصے بعد مرض کے اثرات ختم ہوگئے۔
روحانیت بتاتی ہےکہ کینسر ایک ایسا مرض ہے
جو شریف النفس اور با اختیا ر ہے سنتا ہے
اور حواس رکھتا ہے اگر اس سے دوستی کرلی
جائے اور کبھی کبھی تنہائی میں بشرطیکہ مریض گہری نیند سورہا ہو اس کی خوشامد کی جائے اور یہ کہا
جائے "کہ میاں کینسر تم بہت اچھے ہو ،مہربان ہو،یہ آدمی بہت پریشان ہے اسے
معاف کردو ، اللہ تمہیں اس کی جزاءدےگا ۔" تو کینسر مریض کو چھوڑ دیتا ہے اور
دوستی کا ثبوت دیتا ہے ۔
حکمت و دانائی
٭ رنگوں میں اللہ کی
صفات اور حکمت کے الگ الگ نور ہیں اس لئے
کوئی شے رنگ کے بغیر نہیں ۔
٭ ہم جو کچھ باہر دیکھتے
ہیں وہ ہمارے اندر ہے۔
٭ علم کی ناقص روشنی نے
صحیح کو غلط قرار دے دیا ہے۔
٭ آخری دور میں حضور اکرم
ﷺ کی امت ہی فاتح قرار پائے گی ۔
٭ ہر انسان طبعاً معصوم
ہے۔ ماحول کی سخت گیری اسے پریشان
کرکے سخت گیر بنا دیتی ہے۔
٭ مرشد معلم جنت ہے۔
اچھا اور
فرما نبردار شاگرد جنت دیکھ لیتا ہے۔
٭اگر بڑا آدمی بننا چاہتے ہو تو جھوٹ اور چھچھورے پن
سے باز رہو ۔
٭ انسان کے پہنے ہوئے
لباس میں اس کی صفات کا عکس ہوتا ہے ۔
٭ انسان اشیا ء کو دیکھنے
سے نہیں تجربات سے سیکھتا ہے ۔
٭ اگر دل کو یقین کا
مقام حاصل ہو جائے تو اللہ مل جاتا ہے۔
٭مقام حاصل کرنے کے
لئے آزمائش ضرور ہوتی ہے، بالکل اس طرح جیسے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے وقت ٹیلوں سے
گزرنا پڑتا ہے۔
٭راہ سلوک کے سارے
مسافروں کو ہوا کی طرح رہنا چاہئے، جو پھولوں میں سے گزرتی ہے اور جو کانٹوں سے
بھی گزر جاتی ہے۔
٭کائنات کی تمام
حرکات اللہ کے حکم سے قائم ہے۔
٭جو بندہ خالق کو
جان لیتا ہے دنیا سے اس کی توقعات ختم ہو جاتی ہیں۔
٭سب سے ترقی یافتہ
دور نبی کریمﷺ کا دور ہے۔
٭بچوں اور بچیوں پر
لازم ہے کہ وہ روحانی تعلیم کے ساتھ دنیاوی فنون میں بھی مہارت حاصل کریں۔
٭عورت کو خالق
کائنات اللہ نے تخلیق کا وسیلہ بنایا ہے۔
٭ہر مسلمان مرد اور
ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔
٭اپنے بچوں کو اچھے
اساتذہ سے تعلیم دلوائیں۔
٭بچپن میں ہی بچوں
کی ذہنی صلاحیت اور افتاد طبیعت کا اندازہ لگا لینا چاہئے۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔