Topics

بی بی صائمہؒ

دہلی بھارت میں مقیم بی بی صائمہؒ باکمال اور صاحب باطن خاتون تھیں۔

’’بابا فرید گنج شکرؒ نے فرمایا:

’’اس خاتون کی عبادت و ریاضت اور اشغال دس کامل مردوں کے برابر ہیں۔"

’’بی بی صاحبہ شہباز کی مانند ہیں، مردوں جیسی ہمت ہے۔‘‘

’’بی صائمہ معتبر اور بزرگ ہستی ہیں، لوگ آپ کی مجلس میں اس طرح حاضر ہوتے تھے جیسے حضرت رابعہ بصریؒ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے۔

(حضرت سید محمد گیسودرازؒ )

’’علماء اور درویش آپ کی ولایت پر مکمل اعتقاد رکھتے تھے۔

(حضرت جمالیؒ )

’’بی بی صائمہ اپنے زمانے کی معتبر عابدہ ہیں۔‘‘

(حضرت عبدالحق محدث دہلویؒ )

بابا فرید گنج شکرؒ کے چھوٹے بھائی حضرت نجیب الدین متوکل اکثر بی بی صائمہؒ کی خدمت میں حصول فیض کے لئے حاضر ہوتے تھے۔

ہدایوں میں قیام کے دوران شیخ نجیب الدین کے حالات اتنے زیادہ خراب ہو گئے کہ فاقوں کی نوبت آ گئی۔ ایک دن جب وہ اپنے حجرے میں عبادت کر رہے تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی باہر ایک شخص کھانے پینے کا وافر سامان لئے کھڑا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ سارا اناج اور خورد و نوش بی بی صائمہؒ نے عنایت پور سے بھجوایا اور کہا ہے کہ

’’بہن اپنے بھائی کی تکلیف سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘

بی بی صائمہؒ کو حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے عقیدت تھی۔ بی بی صائمہؒ نے اپنے ہاتھ سے سوت کات کر اکٹھا کیا اور پارچاباف سے کپڑا بنوایا۔ کپڑے سے مزار کے لئے غلاف سلوا کر حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر پیش کیا۔ یہ کپڑا سات سو برس سے حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر چڑھا ہوا ہے۔ ایک بار چور مزار سے غلاف (چادر) چرا کر لے گئے جب چوروں نے چاندی نکالنے کے لئے چادروں کو جلایا تو سب چادریں جل گئیں لیکن بی بی صائمہؒ کی چادر کو آگ نہیں لگی۔ چور خوف زدہ ہو کر اس چادرکو درگاہ میں واپس ڈال گئے۔ یہ عجیب سربستہ راز ہے کہ سات سو برس گزرنے کے باوجود کپڑا ٹھیک حالت میں ہے۔ اس چادر پر روپے کے برابر جلا ہوا نشان بھی ہے۔

بی بی صائمہؒ نے نماز مغرب کے بعد نان اور پانی جو کنیز رکھ گئی تھی۔ تناول فرمانا چاہا تو آواز آئی:

’’اے صائمہ! اگر تو آج کی رات مر جائے تو کیسے افسوس کی بات ہے کہ دنیا سے جاتے وقت تیرا پیٹ مادی غذا سے بھرا ہو گا۔‘‘
آپؒ نے غیبی آواز سن کر روٹی پڑوس میں بھجوا دی اس کے بعد چالیس دن رات چپ کا روزہ رکھا۔ اکتالیسیوں دن دیکھا کہ ایک پر ہیبت اور صاحب عظمت شخص گھر کے صحن میں کھڑا ہے بی بی صائمہؒ نے اسے دیکھ کر چالیس روز کے بعد پہلی بار بات کی اور پوچھا:
’’آپ کون ہیں؟‘‘

اس شخص نے جواب دیا:

’’میں عزرائیل ہوں۔‘‘

بی بی صائمہؒ نے کہا:

’’اتنا وقت دیجئے کہ میں وضو کر کے دو رکعت نفل نماز پڑھ لوں۔‘‘

فرشتہ خاموش کھڑا رہا۔ بی بی صائمہؒ نے وضو کیا اور آخری سجدے میں عالم دنیا سے عالم بالا میں تشریف لے گئیں۔

حکمت و دانائی

* ہر کام کو صحیح طریقہ سے انجام دینا ’’اخلاص‘‘ ہے۔

* اللہ کی قربت سے گناہ دھل جاتے ہیں۔

* فرمانبرداری کرتے وقت طبیعت میں انکساری نیک بختی کی علامت ہے۔

* ’’ادب اور لحاظ‘‘دوستی کو مستحکم کرتا ہے۔

* احکام الٰہی کی بجاآوری میں’’سکون‘‘ پنہاں ہے۔

* ادب فقراء کا لباس ہے۔

* آدمی مٹی کا پتلا ہے روح اس کی زندگی ہے۔

* مروت یہ ہے کہ کسی پر احسان نہ جتاؤ۔

* بندہ جب تک اپنے نفس کے بت کو نہیں توڑتا اللہ تک رسائی نہیں ہوتی۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔