Topics

بی بی میمونہ حفیظؒ

بی بی میمونہؒ نے اپنے روحانی استاد کی نگرانی میں سلوک کا راستہ طے کیا اور اللہ نے انہیں عارفہ بنا دیا۔ ان کی ذات سے اللہ کی مخلوق کو فیض پہنچا، نہایت توجہ سے سب کے مسائل سنتیں اور تسلی و تشفی دیتیں۔ پوشیدہ طریقے سے ضرورت مندوں کی مدد کرتی تھیں۔ انہیں کئی بار نیک اولاد کی بشارت دی گئی۔

ایک دفعہ تہجد کے وقت دیکھا کہ حضور اکرمﷺ کا دربار لگا ہوا ہے اور آپﷺ سامنے تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ رسول اللہﷺ سے کچھ فاصلہ پر حضرت عائشہ صدیقہؓ اور سیدہ فاطمہؓ بیٹھی ہوئی ہیں۔ پھر حضرت عائشہؓ حضورﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھ میں کچے چاولوں کی ایک تھیلی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’عائشہ چاول پکا کر میمونہ کو کھلا دو۔‘‘

یہ سن کر بی بی میمونہ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ سے چاولوں کی تھیلی لے لی اور ان کے قدموں میں گر کر عرض کیا:

’’میں خود پکا لوں گی۔‘‘

خواب میں دیکھا کہ حضورﷺ ایک حوض کے کنارے کھڑے ہیں اور بی بی میمونہؒ کچھ دور دروازے پر کھڑی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’’میں تم سے خوش ہوں۔‘‘

ایک مرتبہ خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں کہ آسمان پر تیز بجلی چمکی اور بل کھاتی ہوئی ان کے اندر داخل ہو گئی۔

اس کے ساتھ ہی ہوا میں معلق ایک تصویر سامنے آئی جو ایک کمزور بچے کی تھی۔ آواز آئی اس بچے کا نام دنیا اور آسمانوں میں روشن ہو گا۔
بی بی میمونہؒ نے محسوس کیا کہ یہ لڑکا ان کا بیٹا ہے، ساتھ ہی خیال آیا کہ یہ بچہ اتنا کمزور ہے بھلا یہ کیا کام کرے گا؟ پھر آواز آئی:

’’خدا ایسا ہی کرے گا۔‘‘

یہ بشارت پوری ہوئی اور آپؒ کا ایک بیٹا ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوا۔

حکمت و دانائی

* اللہ کے جو بندے روحانی آگاہی کے ناپیدا کنار سمندر میں اتر جاتے ہیں ان کے اوپر سے ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔
* موت انسان کی سب سے بڑی محافظ ہے۔

* احساس برتری انسان کے لئے ایسی ہلاکت ہے جس میں ابلیس مبتلا ہے۔

* موت کا فرشتہ عزرائیل انسان کی خود حفاظت کرتا ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔