Topics
اولیاء اللہ خواتین میں آپ کو ممتاز مقام
حاصل ہے۔ آپ قلندرانہ اوصاف رکھتی تھیں اور مرتبۂ ولایت نہایت بلند تھا۔
قلندریت ایک صفت ہے جس میں بندے کی طرز فکر غیر جانبدار ہوتی ہے۔ ’’قلندر‘‘ اسے
’’صوفی‘‘ کو کہتے ہیں جس کی
چشم حقیقت کے سامنے ہر شئے کی شیئت مظہر بن گئی ہو۔ اور وہ مراتب اعلیٰ کو سمجھ کر
ان میں عروج کرتا رہے۔ ’’قلندر‘‘ وہ ہے جو’’وحدت‘‘ میں غرق ہو کر ’’مرتبہ احدیت‘‘
کا مشاہدہ کرتا رہے۔ مشاہدے کے بعد انسانی مرتبے پر واپس پہنچ کر ’’عبدیت‘‘ کا
مقام حاصل کرے۔ جزو میں کل اور کل میں جزو کو دیکھے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ’’قلندر‘‘
’میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں
نہیں‘ کا مشاہدہ کرتا ہے۔
’’مناقب قلندریہ‘‘ میں لکھا ہے کہ مسجد
نبویﷺ کے قریب ’’صفہ‘‘ ایک چبوترہ تھا۔ وہاں پر فقراء اور مساکین رہتے تھے۔ جو
’’اصحاب صفہ‘‘ کہلاتے تھے۔ اصحاب صفہ کی تعداد سو(۱۰۰) سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
حضرت عبدالعزیز مکی قلندرؒ ان میں سے ایک
تھے۔ حضرت عبدالعزیز مکی قلندرؒ سے قلندری سلسلہ جاری ہوا۔ یہ بزرگ حضرت صالحؑ کی
اولاد میں سے ہیں۔ ان کو جب حضرت محمد رسول اللہﷺ کے ظہور کی خوشخبری ملی تو انہوں
نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔
’’اے اللہ! مجھے اتنی عمر عطا فرما کہ میں خاتم النبیینﷺ کا زمانہ پا سکوں۔‘‘
اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی۔
حضرت عبدالعزیز مکی قلندرؒ نے آقائے
نامدار، تاجدار مدینہ، سرکار دو جہاںﷺ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ نبی
مکرمﷺ نے حضرت عبدالعزیز مکی کو ’’قلندر‘‘ کے نام سے مشرف فرمایا۔
اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندر کا
مقام عطا کرتا ہے وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے
یہ نیک بندے غرض، ریا، طمع، حرص، لالچ اور منافقت سے پاک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی
مخلوق جب ان سے رجوع کرتی ہے تو یہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کی پریشانیوں کا
تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے مقرر کیا ہے۔
یہی وہ پاکیزہ اورقدسی نفس اللہ کے بندے
ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور
ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں۔ میرے ذریعے
بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔‘‘
خواجہ حسن بصریؒ ہفتے میں ایک بار درس دیا
کرتے تھے۔ بی بی صاحبہ ان کے درس میں حاضر ہوتی تھیں لیکن جس روز نہ ہوتیں حضرت
حسن بصریؒ انتظار فرماتے تھے یا راز کی باتیں بیان نہ فرماتے تھے۔ کسی نے کہا کہ
آپ ایک عورت کے لئے اتنا انتظار فرماتے ہیں اور لوگ درس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ آپ
نے فرمایا۔
’’جو شربت ہاتھیوں کے لئے تیار کیا جاتا
ہے اس کو چیونٹیاں برداشت نہیں کر سکتیں۔‘‘
بی بی رابعہؒ کے والدین پر عسرت و تنگدستی
کا سخت عالم تھا۔ ان ہی دنوں ان کے ہاں بی بی صاحبہ کی پیدائش ہوئی۔ ایک رات عبادت
سے فارغ ہو کر بی بی صاحبہ کے والد سو گئے تو سیدنا حضورﷺ کی زیارت ہوئی۔
سیدنا حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تیری یہ بیٹی اندھیروں میں روشن چراغ ہے
تو جا اور حاکم وقت کو ہمارا پیغام دے کہ اس نے آج اپنے معمولات کے برعکس درود و
سلام کا تحفہ نہیں بھیجا اور اس سے کہہ دے کہ چار سو درہم تجھے دے دے۔‘‘
حضرت رابعہؒ کو کسی نے بطور ملازمہ خرید
لیا۔ ان کا مالک ایک سخت گیر شخص تھا اور آپ سے بہت کام لیتا تھا۔ حضرت رابعہؒ دن
رات محنت سے کام کرتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتی تھیں۔ ایک بار کنوئیں سے
پانی بھر کر گھر واپس آ رہی تھیں کہ پیر پھسل گیا اور گر پڑیں۔ سخت چوٹ کی وجہ سے
آپ کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ درد کی شدت سے بے حال گھر پہنچیں کسی سے کچھ نہ کہا
اور خود ہی پٹی باندھ لی۔ رات ہوئی تو معمول کے مطابق اٹھ کھڑی ہوئیں اور بارگاہ
الٰہی میں سجدہ ریز ہو گئیں۔ رات کو کسی وقت ان کے مالک کی آنکھ کھلی اور وہ آپ کی
کوٹھری کی طرف گیا۔ اس نے دیکھا کہ حضرت رابعہؒ سجدے میں اللہ کی حمد و ثناء میں
مشغول ہیں۔ اس نے ایک آواز سنی:
’’اے رابعہ! ہم تم کو وہ مقام قرب عطا
کریں گے جس پر مقربین ملائیکہ بھی رشک کریں گے۔ بے شک تو ہمارا کلام سنے گی اور ہم
سے کلام کرے گی۔‘‘
اسی وقت حضرت رابعہؒ عالم وارفتگی میں
سجدے سے اٹھیں نور کی تجلی نے ان کواپنے احاطے میں لے لیا۔ حضرت رابعہؒ نے بے خودی
میں سرشار ہو کر فرمایا:
’’یا اللہ! مجھے تیری ذات کے علاوہ کچھ
نہیں چاہئے۔ تیرا مشاہدہ ہی میرے لئے نعمت کبریٰ ہے۔‘‘
مالک نے جب آپ کا جذب و کیف اور بارگاہ
الٰہی میں مقبولیت کا یہ منظر دیکھا تو گذشتہ سختیوں کی معافی مانگی اور آپ کو
آزاد کر دیا۔
حضرت رابعہؒ فرماتی ہیں:
’’میں کبھی تنہا نہیں رہی۔ ہر لمحے اللہ
میرے ساتھ ہوتا ہے۔ میں جلوہ خداوندی کا نظارا کرتی ہوں اور خدا کو پہچانتی ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت رابعہؒ کو باطنی نعمت کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال کی دولت
بھی فراوانی سے عطا کی تھی۔ بصرہ کے ایک خوبصورت نوجوان نے جب آپ کے حسن کا چرچا
سنا تو ایک دن آپ کو دیکھنے کے لئے پیچھے پیچھے چلا۔ وہ آپ کے حسن سے مسحور ہو
گیا۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ کسی وقت آپ کے پاس جا کر اپنا حال دل بیان کرے گا اور
اپنی محبت کا اقرار بھی کرے گا۔ وہ آپ کے گھر میں داخل ہو گیا۔ حضرت رابعہؒ اس وقت مراقبہ میں
تھیں اور انوار الٰہی آپ پر بارش کی طرح برس رہے تھے۔ نوجوان نے کچھ کہنے کا ارادہ
کیا تھا کہ حضرت رابعہؒ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ آپ کی نظر میں نہ جانے کیا بات تھی
کہ نوجوان کے حواس ختم ہو گئے۔
حضرت رابعہؒ نے فرمایا:
’’اے اللہ! تو اپنے اس بندے پر رحم فرما
اور اسے قبول کر لے۔‘‘
نوجوان بے خودی کی حالت میں حضرت رابعہؒ
کے گھر سے نعرے لگاتا ہوا باہر نکل گیا اور سالوں سال بصرہ کے گلی کوچے اس کے نعرہ
بے خودی سے گونجتے رہے۔
ایک چور اس خیال سے آپ کے گھر میں داخل
ہوا کہ یہاں بڑے بڑے امراء حاضری دیتے ہیں ضرور نذر و نیاز کی خطیر رقم جمع ہو گی۔
گھر کا کونا کونا دیکھنے کے بعد اسے کچھ نہ ملا تو اس نے غصے میں وہ چادر کھینچ لی
جسے حضرت رابعہؒ اوڑھے ہوئے تھیں۔ چور نے بھاگنے کا ارادہ کیا تو اسے دروازہ
دکھائی نہ دیا بلکہ ہر سمت دیوار نظر آئی۔ پریشان اور خوف زدہ ہو کر اس نے معافی
مانگی۔ حضرت رابعہؒ نے اس کے لئے دعا کی:
’’اے میرے رب! اس شخص کو میرے گھر سے کچھ
نہیں ملا لیکن میں اسے تیرے در پر لے آئی ہوں۔ تو اسے خالی نہ لوٹا۔‘‘
اس چور کی ماہیت قلب ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سے مالا مال ہو گیا۔
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار
نماز کے بعد میں بی بی رابعہ بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بی بی صاحبہ نے کھانا
پکانے کے لئے گوشت ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ ہم سے گفتگو میں
مشغول ہو گئیں۔ نماز مغرب کے بعد بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ رات کے وقت آپ
کھانے کے لئے روٹی اور پانی لے کر بیٹھیں تو اچانک ہانڈی کا خیال آیا کہ اس میں
بہت دیر سے سالن پک رہا ہے اور خیال آیا کہ جل گیا ہو گا۔ دیکھا تو نہایت عمدہ
گوشت پکا ہوا موجود تھا۔ بی بی صاحبہ نے وہ گوشت ہمیں بھی کھلایا۔ ایسا لذیذ سالن
ہم نے کبھی نہ کھایا تھا۔
بی بی رابعہؒ کو کسی نے بازار حسن میں
فروخت کر دیا۔ خداداد حسن کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔ جو شخص نائکہ سے معاملہ
طے کر کے رات کو جاتا وہ تھوڑی دیر بعد کمرے سے عجیب کیفیت کے ساتھ باہر چلا جاتا۔
کافی دن گزر گئے تو نائکہ نے محسوس کیا جو شخص ایک بار آتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔
ایک رات اس نے چھپ کر کمرے میں جھانکا تو حیران رہ گئی کہ اندھیرے میں بی بی صاحبہ
کا جسم نور کے مجسمے کی طرح روشن ہے۔ اس نظارے سے اس کی کیفیت غیر ہوگئی۔ صبح
سویرے بی بی صاحبہ کے پاس آئی اور قدموں میں گر کر معافی طلب کی۔ کہا، ’’خدارا
میرا قصور معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ آج سے آپ آزاد ہیں۔‘‘
بی بی صاحبہ نے فرمایا۔’’اری احمق! تو نے مجھے آزاد کر کے جاری فیض کو ختم کر
دیا۔‘‘
دو درویش آپ کے گھر مہمان ہوئے۔ اس وقت
گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں۔ حضرت رابعہؒ نے ارادہ کیا کہ وہی دو روٹیاں مہمانوں
کے سامنے رکھ دیں گی۔ اسی دوران دروازے پر کوئی سائل آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے سائل
کو زیادہ مستحق سمجھتے ہوئے وہ روٹیاں اسے دے دیں اور خود اللہ پر توکل کر کے بیٹھ
گئیں۔ کچھ دیر گزری تھی کہ بصرہ کی کسی رئیس خاتون نے اپنی کنیز کے ہاتھوں کھانے
کا ایک خوان بھیج دیا۔ حضرت رابعہؒ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ خوان مہمانوں
کے آگے رکھ دیا۔
زندگی کے آخری ایام میں آپؒ حد درجہ عبادت
و ریاضت میں مشغول ہو گئیں۔ غذا بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ زیادہ تر پانی پر گزارا
کرتی تھیں۔ ضعف کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے گر جاتی تھیں۔ یوں لگتا
تھا کہ مادی جسم محب و محبوب کے درمیان ایک پردہ بن گیا ہے۔ جب آپ زیادہ ضعیف اور
بیمار ہوئیں تو عقیدت مند کثرت سے عیادت و مزاج پرسی کے لئے حاضر ہونے لگے۔ حضرت
رابعہؒ کی خواہش تھی کہ ان کو عام لوگوں کی طرح سپرد خاک کیا جائے اور قبر کو
امتیازی اہمیت نہ دی جائے۔ ایک دن آپ طالبات اور طلباء کو درس دے رہی تھیں کہ اللہ
تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ حضرت رابعہؒ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ باہر چلے
جائیں اور خود خلوت نشین ہو کر لیٹ گئیں۔ کچھ دیر بعد آپ کی روح قفس عنصری سے آزاد
ہو گئی۔
وصال کے بعد کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا
تو دریافت کیا۔
’’بی بی صاحبہ! قبر میں کیا معاملہ پیش
آیا۔‘‘ حضرت رابعہؒ نے فرمایا:
’’جب فرشتوں نے پوچھا کہ آپ کا رب کون ہے
تو میں نے کہا کہ واپس جاؤ اور اللہ رب العزت سے کہو کہ بے شمار مخلوق میں جب آپ
نے ایک ضعیف عورت کو فراموش نہیں کیا تو میں کس طرح آپ کو بھول سکتی ہوں۔‘‘
جناب ساجد حسین صاحب کے تایا ہندوستان کے
صوبے سی پی برابر میں پولیس انسپکٹر تھے۔ ہمیشہ ایمان داری سے نوکری کی اور رشوت
نہیں لی۔ ایک بار کوئی سکھ ڈی ایس پی نریندر سنگھ ان کا افسر بالا مقرر ہوا۔ یہ ڈی
ایس پی خود بھی رشوت لیتا تھا اور اپنے ماتحتوں سے بھی اپنا حصہ وصول کرتا تھا۔ جب
اس نے تایا جان پر دباؤ ڈالا تو انہوں نے رشوت لینے سے انکار کر دیا۔ ڈی ایس پی نے
تایا کو ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ کر کے ملازمت سے معطل کر دیا اور ان کے خلاف
عدالتی کارروائی شروع ہو گئی۔
تایا جان اپنے گاؤں میں آ کر کھیتی باڑی میں مصروف ہو گئے اور جب عدالت کی تاریخ
پڑتی تو حاضر ہو جاتے۔ ان حالات کی وجہ سے خاندان کے بہت سے لوگ انہیں بری نظروں
سے دیکھنے لگے۔ بالخصوص تایا زاد بہن شدید پریشان اور شرمندہ رہنے لگیں۔ ایک رات
وہ آرزدہ خاطر سوئیں خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی صورت خاتون سفید لباس پہنے ہوئے
تشریف لائیں۔ خوبصورتی اور لباس سے شہزادی یا رانی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ خاتون
بہن کی مسہری کے پاس آکر رک گئیں اور شفقت سے فرمایا:
’’بیٹی تم فکر نہ کرو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مصیبت ٹل جائے گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ جانے لگیں تو بہن نے ان سے
پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟‘‘
خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہم بصرہ سے
تمہارے پاس آئے ہیں۔‘‘
بہن کہتی ہیں۔’’میری آنکھ کھلی تو میں بے
حد خوشی تھی۔ کمرے میں ایک لطیف خوشبو کا احساس ہوا۔‘‘
اس خواب کے بعد تایا جان کے مقدمے میں ایک
بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ تایا جان کی اپیل پر انکوائری افسر تبدیل کر دیا گیا اور
ایک انگریز مقرر ہوا اس نے نئے سرے سے الزامات اور واقعات کی تحقیق کی۔ جرح اور
تحقیقات میں گواہوں نے اعتراف کر لیا کہ یہ مقدمہ ڈی ایس پی کے دباؤ پر بنایا گیا
ہے۔ تایا جان کے خلاف انکوائری ختم کی گئی اور وہ باعزت بری ہو گئے۔
* ایمان کامل کی دولت ان کو ملتی ہے جو
اللہ کے مقرب و محبوب ہوتے ہیں۔
*اللہ پر توکل کرنے والا کبھی مسائل کا
شکار نہیں ہوتا۔
* اللہ کی طلب اور نفس دونوں یکجا نہیں
ہوتے۔
* جب تک معبود کو پہچان نہ لیا جائے اس کی
عبادت کس طرح ہو سکتی ہے۔
* جہنم کے خوف اور جنت کی طلب سے بے نیاز
ہو کر عبادت کرنے سے انسان مقام محمود پر پہنچ سکتا ہے۔
* دنیا ایسے دوست کی مانند ہے جو بظاہر
دوست ہے لیکن اندر سے دشمن ہے۔
* اللہ کے کرم سے وہی لطف اندوز ہوتا ہے
جسے اللہ نے اپنا قرب عطا کر دیا ہے۔
* کسی کے برا کہنے سے رزق میں کمی نہیں
ہوتی۔
* جس سے اللہ راضی ہو جائے اس کے رزق میں
کمی نہیں ہوتی۔
* اللہ سے محبت کے دعویٰ میں صداقت یہ ہے
کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے۔
* دنیا خدا کی ملکیت ہے اسے دنیا والوں سے
مانگ پر پستی میں نہ گرو۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔