Topics

بی بی قرسم خاتونؒ


شیخ العالم بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی والدہ بی بی قرسم خاتونؒ نے بیٹے کی تربیت اس طرح کی کہ بیٹا ولی اور خداشناس ہو گیا۔

بی بی قرسم خاتونؒ پوری رات عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک رات بی بی قرسم خاتونؒ تہجد کی نماز پڑھ رہی تھیں کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ بی بی صاحبہؒ نے نظر ڈالی تو چور اندھا ہو گیا، چور نے روتے ہوئے کہا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ چوری نہیں کرونگا۔ اسی وقت بصارت لوٹ آئی۔ اس نے بی بی صاحبہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔ اگلی صبح وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر بی بی قرسم خاتونؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہل و عیال سمیت مسلمان ہو گیا۔ آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کی عبادت و ریاضت کو قبول فرما کر اس کو مرتبہ ولایت عطا فرما دیا۔

بابا فرید گنج شکرؒ کی کمسنی میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور ان کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ بی بی قرسم خاتونؒ پر آ گئی۔ بی بی صاحبہ نے نہایت توجہ اور محنت سے اپنے صاحبزادے کی پرورش کی۔ بابا فریدؒ ابھی بچے تھے کہ ان کی والدہ عبادت کی ترغیب کے لئے روزانہ ان کی جائے نماز کے نیچے شکر کی ایک پڑیا رکھ دیتی تھیں اور کہتی تھیں:

’’بیٹا جو بچے دل سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں روزانہ جائے نماز کے نیچے سے شکر ملتی ہے۔‘‘

ایک دن والدہ صاحبہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ جب انہیں خیال آیا تو بابا فریدؒ نماز پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا:

’’بیٹا تم نے نماز ادا کر لی؟‘‘

بابا فریدؒ نے ادب سے فرمایا:

’’جی اماں جان! میں نے نماز ادا کر لی ہے اور شکر بھی کھالی۔‘‘

یہ حال دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ بچے کے اندر یقین کا نور پیدا ہو گیا ہے اور اللہ کی بارگاہ سے لطف و اکرام بھی حاصل ہے ۔ اس دن سے انہوں نے اپنے بیٹے کو مسعود گنج شکرؒ کہنا شروع کر دیا۔

بابا فرید الدین مشعود گنج شکرؒ پاک پتن  میں تشریف فرما تھے۔ ایک دن شیخ نجیب الدین متوکل کو بلایا اور یہ فریضہ سونپا کہ وہ والدہ صاحبہ کو پاک پتن  لے آئیں۔ شیخ نجیب الدین بی بی قرسم خاتونؒ کو ساتھ لے کر پاک پتن  کی طرف عازم سفر ہوئے دوران سفر آرام کی غرض سے ایک درخت کے نیچے ٹھہرے، شیخ نجیب الدین پانی لینے کیلئے قریبی علاقے میں چلے گئے۔ واپس آئے تو بی بی صاحبہ کو موجود نہ پایا حیرانی اور اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر تلاش کیا لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ جب کوشش ناکام ہو گئی تو بابا فریدؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گمشدگی کا واقعہ عرض کیا۔

بابا فریدؒ نے فرمایا:

’’کھانا تیار کرو اور غریبوں میں تقسیم کر دو۔‘‘

ایک مدت گزرنے کے بعد شیخ نجیب الدین متوکلؒ کا گزر پھر اس علاقے سے ہوا جہاں بی بی قرسمؒ لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ایک جگہ شیخ نجیب کو چند انسانی ہڈیاں دکھائی دیں بعض قرائن سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے بی بی قرسم خاتونؒ کو کسی درندے نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے ہڈیاں جمع کیں اور ایک تھیلے میں رکھ کر بابا فریدؒ کے پاس پہنچے اور تمام حال بیان کیا۔ بابا فریدؒ نے جب تھیلی کو کھولا تو اس میں سے رنگ برنگے پھول برآمد ہوئے بابا فریدؒ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔

حکمت و دانائی

* دنیا دار دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور دنیا اہل اللہ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

* وہ شخص نہایت بدقسمت ہے جس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ ہو۔

* بے ادب خالق و مخلوق دونوں کا معتوب ہو جاتا ہے۔

* اللہ کے نزدیک بہترین صفت پرہیز گاری ہے۔

* بچوں سے پیار کرنا اللہ کی رحمت کی نشانی ہے۔

* سچی عبادت سے بری عادتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

* موت کو یاد رکھنا تمام بیماریوں کا علاج ہے۔

* فقر کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب لینے سے دینا اچھا لگتا ہے۔

* صدر دروازے کو پکڑ لو باقی تمام دروازے کھل جائیں گے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔