Topics

بی بی یمامہ بتولؒ

حضرت بی بی بتولؒ حافظ قرآن تھیں گھر میں بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی تھیں۔ معنی و مفہوم پر خود بھی تفکر کرتیں اور بچیوں کو بھی قرآن کا مفہوم سمجھاتی تھیں۔ بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتی تھیں۔

ایک رات خواب میں بی بی بتولؒ کو رسولﷺ کی زیارت نصیب ہوئی، دیکھا کہ ایک بہت بڑے میدان میں جس کے چاروں طرف سبزہ زار اور کھیت تھے۔ آپﷺ نے باجماعت نماز پڑھائی۔ مقتدی سب کی سب خواتین تھیں۔ یہ سب سے پچھلی صف کے وسط میں کھڑی تھیں۔ جب سیدنا حضورﷺ نے سجدہ کیا تو سجدہ کی حالت میں یمامہ بتولؒ رینگتی ہوئی آپﷺ سے ایک قدم پیچھے پہنچ گئیں۔ حضورﷺ جب سجدہ سے اٹھے تو یمامہؒ بالکل آپﷺ کے پیچھے کھڑی تھیں۔ آپﷺ نے سلام پھیرا اور دعا فرمائی، انہوں نے آمین کہا اور پھر آپﷺ نے ۳۳ دانوں والی سبز رنگ کی تسبیح انہیں عطا فرمائی اور خود اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ کھیتوں کی طرف تشریف لے گئے۔

یمامہ بتولؒ نہایت مہمان نواز، سخی اور فیاض تھیں۔ ان کے ارد گرد خواتین کا ہجوم رہتا تھا۔ ایک دفعہ خواتین کو درس دیتے ہوئے فرمایا:
’’روئے زمین پر انسان کو ہدایت صرف اللہ کی کتاب قرآن پاک سے مل سکتی ہے۔ قرآن پاک تسخیری فارمولوں کا خزانہ ہے، جتنی ذہنی توجہ اور اخلاص سے ہم ان کو تلاش کریں گے اتنے ہی خزانے ہم پر منکشف ہو جائیں گے، قرآن کریم کو عزم، ولولہ اور ہمت کے ساتھ پڑھئے کہ اس کی نورانی کرنوں سے ہماری زندگی سنور جائے۔ قرآن آئینہ کی طرح آپ کے اندر ہر داغ اور ہر دھبہ نمایاں کر کے دکھاتا ہے، قرآن ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات و صفات کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔

سیدناﷺ نے یہ بشارت دی ہے کہ

’’قرآن پاک پڑھنے والوں سے قیامت کے روز کہا جائے گا کہ جس ٹھہراؤ اور خوش الحانی سے تم دنیا میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے تھے اسی طرح قرآن پاک کی تلاوت کرو اور ہر آیت کے صلہ میں ایک درجہ بلند ہوتے جاؤ تمہارا ٹھکانہ تمہاری تلاوت کی آخری آیت کے قریب ہے۔‘‘

حکمت و دانائی

* جو قوم قرآن سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے اور جو قوم قرآن سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی۔ قرآن اس کی رہنمائی نہیں کرتااور ایسی قوم کو اللہ اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔