Topics
شعدانہ صاحبہؒ کی تقریر کا ایک مخصوص
انداز تھا۔ دوران خطابت بہترین اشعار پڑھتی تھیں۔ خوش الحان تھیں۔ آپ کا خطاب سننے
کے لئے بڑے بڑے علماء حاضر ہوتے تھے۔ بچیوں کو خاص طور پر علم سکھاتی تھیں اور ان
کی تربیت کو پوری قوم کی تربیت کہتی تھیں۔ لنگر کا خاص اہتمام کرتی تھیں۔
ایک دفعہ لنگر میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد
نے شرکت کی۔ ملازموں نے بتایا کہ کھانا کم پڑ گیا ہے۔
آپ نے فرمایا:
’’بچوں کو سب سے پہلے کھانا کھلایا کرو۔
یہ اللہ میاں کے باغ کے پھول ہیں۔‘‘
پھر بی بی شعدانہؒ کھانے کی طرف تشریف لے
گئیں۔ آپ نے ایک دیگ میں ہاتھ ڈالا اور کہا اس میں تو کھانا موجود ہے۔ سب نے شکم سیر
ہو کر کھانا کھایا۔
ایک مرتبہ ایک خاتون سے فرمایا:
’’ماں پر بچے کا یہ حق ہوتا ہے کہ اسے
دودھ پلایا جائے۔ قرآن نے ماں کا یہی احسان یاد دلا کر ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن
سلوک کی تاکید کی ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں نو مہینے تک ماں کے خون سے پرورش پاتا
ہے۔ بچہ وہی ذہن اور وہی خیالات اپناتا ہے جو ماں کے دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
ماں کا فرض ہے کہ وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ اللہ اوراس کے رسول
اللہﷺکے طرز عمل کا سبق دیتی رہے۔
دودھ
کے ہر گھونٹ کے ساتھ نبی برحقﷺ کا عشق اور دین کی محبت بھی اس کے سراپا میں اس طرح
انڈیل دے کہ قلب و روح میں اللہ کی عظمت اور رسول اللہﷺ کی محبت رچ بس جائے۔ اس
خوشگوار فریضہ کو انجام دے کر جو روحانی سکون اور سرور حاصل ہوتا ہے ا س کا اندازہ
انہی ماؤں کو ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش اللہ کے لئے کرتی ہیں۔‘‘
* جو آنکھیں محبوب کے دیدار سے محروم ہوں
وہ آنکھیں اشکوں سے خالی نہیں ہوتیں۔
* بچہ وہی ذہن اور وہی خیالات اپناتا ہے
جو ماں کے دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔