Topics
بی بی جمال خاتونؒ حضرت میاں میرؒ کی بہن
تھیں۔ بی بی جمال خاتونؒ کو سلسلہ قادریہ سے فیض حاصل ہوا، انہیں رابعہ ثانی کہا
جاتا ہے۔
زہد و تقویٰ اور روحانی ذہن ورثہ میں ملا۔ ان کی والدہ بھی روحانیت میں بڑے درجہ
پر فائز تھیں۔ ہر وقت ذکر و فکر میں مشغول رہنا ان کا معمول تھا۔ بی بی جمال
خاتونؒ نے اپنی والدہ کا ذہن قبول کیا اس لئے ان کے اوپر روحانی راستے جلد کھل
گئے۔ ان کے بھائی میاں میرؒ نے بھی بھرپور توجہ دی، روحانی اسباق تعلیم کئے جس سے
آپؒ کا روحانی سفر تیزی سے طے ہوا، بی بی جمالؒ کی طبیعت میں گوشہ نشینی تھی۔ کبھی
سیوستان سے باہر نہیں گئیں۔
بی بی صاحبہ لوگوں کو کھانا کھلا کر بہت
خوش ہوتی تھیں۔ لنگر کا اہتمام رہتا تھا اور کثیر تعداد میں لوگ کھانا کھاتے تھے۔
جب کھانا تیار ہو جاتا تھا تو خود اپنے ہاتھ سے نکال کر ابتدا کرتی تھیں اور ساتھ
یہ بھی فرماتی تھیں کہ
’’جو بھی آئے اسے کھلایا جائے، کوئی بھوکا
نہ جائے، انشاء اللہ سب کے لئے پورا ہو جائے گا۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوتا تھا اور لوگ سیر ہو
کر کھاتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ نے دو من گیہوں اپنے ہاتھ سے
مشکوں میں رکھے۔ روزانہ ان میں سے گیہوں نکال کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی تھیں۔
ایک سال گزرنے کے بعد بھی مٹکے خالی نہیں ہوئے۔
ایک دن بی بی صاحبہ پر خاص کیفیت طاری تھی
اس دوران ایک خشک مچھلی آپ کے سامنے لائی گئی۔ آپ نے مچھلی کو دیکھتے ہی فرمایا
’’اس مچھلی کو سنبھال کر رکھو اس مچھلی میں برکت ہے۔‘‘
لوگوں نے اس خشک مچھلی کو سنبھال کر رکھ
لیا جب تک یہ مچھلی موجود رہی خوب برکت ہوئی۔
* موقع کی مناسبت سے آگے آنے والے لوگ
کامیاب رہتے ہیں۔
* توکل یہ ہے کہ خوشی اور پریشانی دونوں
میں انسان اللہ کا شکر ادا کرے۔
* نور فراست سے سوچنے والا بندہ اللہ کا
دیدار کر لیتا ہے۔
* چالاک طبیعت انسان ریشم کے کیڑے کی طرح
اپنے خول میں بند ہو جاتا ہے۔
* نیک خواہشات رکھنا سخاوت ہے۔
* شکریہ ہے کہ ہر حال میں خوش رہے۔
* جہاں تک ممکن ہو اللہ سے دنیا کم مانگو
اور آخرت کی فکر کرو۔
* کسی سے غرض نہ رکھو سب میں ممتاز ہو جاؤ
گے۔
پیٹ بھر کر کھانے والا عبادت سے دور ہو جاتا ہے۔
اللہ کی محبت خشوع سے پیدا ہوتی ہے۔
* کم گوئی خود حفاظتی کے لئے ایک قلعہ ہے۔
سر کو جھکنے اور دل کو سوچنے کی عادت ڈالو۔
Ek So Ek Aulia Allah Khawateen
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔