Topics

کیفیات و واردات سبق نمبر ۱


لا ہور سے منیرہ فا طمہ لکھتی ہیں کہ میں بہت دنوںسے ٹیلی پیتھی سیکھنے کی خواہش مند تھی ۔ روحا نی ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی کی پہلی مشق شائع ہو ئی تو میرے دل کی مراد پو ری ہو ئی تو میں نے اللہ کانام لے کر مشق شروع کر دی مشق کے دو ران جو کیفیت  مرتب ہو ئی جو چیزیں سامنے آئیں ان کی تفصیل پیش خدمت ہے۔

۹ ۔ جون : نور کے سمندر میں ڈوب جا نے والی مشق کر رہی تھی تو معلوم نہیں کس وقت نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔خواب میں دیکھا کہ اللہ کانور ہے  جس کا رنگ مرکری لائٹ(MERCURY LIGHT) کی طرح  ہےلیکن اس روشنی میں اتنی زیادہ چمک تھی کہ جب میں نے نظر بھر کے دیکھا تو میری آنکھیں چند ھیاگئیں ۔اس کے بعد اس مقام کی زیارت کی جہاں شہیدوں کی رو حیں رہتی ہیں ۔

فجر کی نماز کے بعد خوا ب میں دیکھا کہ کافی تیز طوفان اور میں دورازے کھڑکیاں بند کر نے کی کو شش کر رہی ہوں وہ بند نہیں ہو تیں۔ اتنے میں ایک گوالا آتا ہے اور مجھے خاص طور سے دودھ دیتا ہے جو کہ بہت گا ڑھا ہے ۔ وہ مجھے یہ دودھ پینے کی تلقین کر تا ہے ۔ اس کانام علم دین ہے دروازہ کھلا چھو ڑ کر جب میں آنگن سے کمرے کی طر ف آتی ہوں توآسمان کی طر ف دیکھتی ہوں میرے سر کے عین اوپر ایک نہایت روشن ستارہ ہے جو بہت خوبصورت ہے اس کے ارد گرد بال ہیں پہلے تو میں اسے دیکھ کر ڈر جا تی ہوں پھر مطمئن ہو کر اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہو جا تی ہو ں ۔

۱۰ ۔ جون : آج رات بھی نور کے دریا میں ڈوبنے کا تصور کر تے کر تے سو گئی خواب میں دیکھا کہ ایک نہا یت  باریک پٹی زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہے اور یہ زمین سے آسمان کی طر ف جا نے کا راستہ ہے جو بہت زیادہ رو شن ہے ۔میری نظر یں اس روشن راستے کو عبور کر کے جب آسمان میں داخل ہو ئی تو میں نے اللہ کی آواز سنی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا ‘’تم اس راستے پر (نوری راستہ جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے )چلنا چا ہتی ہو تو لوگوں کو نیکی اور ہمدردی کی ہدایت کرو ۔  “

۱۱ ۔ جون : مراقبہ نور کے درمیان یوں محسوس ہو ا جیسے کسی نے میرے سامنے سے ایک کالی اسکرین ہٹا دی شگاف کے اندر جب میں نے غور سے دیکھا تو مجھے عجیب عجیب سے چیزیں نظر آئیں مثلاً ایک بہت بڑی میز ، بہت خوبصورت اور بڑا سا پیا لہ وغیرہ وغیرہ ۔

۱۳۔ جون : مراقبہ نور کے درمیان یوں محسوس ہوا جیسے نظر وں کے سامنے نور کا ایک عظیم اور لا محدود سمندر ہے جس میں ساری کائنات ڈوبی ہو ئی ہے ایسے میں ، میں نے اپنے آپ کو اندر سے کھوکھلا پا یا اور میں نے دیکھا میں تو جسم کے نام پر محض ایک باریک ورق ہوں جہاں چا ہوں جب چا ہوں جا سکتی ہوں ۔لہٰذا اپنے استاد کے پاس فضا ئے بسیط میں تیرتے ہو ئے جا نے کا سو چا خیال کے آتے ہو ئے ہی اپنے آپ کو اڑتا ہوا محسوس کر نے لگی اور میرا رخ خود بخود کراچی کی طر ف ہو گیا ۔

۱۵۔ جون : نور کے دریا      میں غرق ہو گئی ایک بڑی کتاب دیکھتی ہوں ۔ کھول کر پڑھتی ہوں اس میں فا رسی زبان میں کچھ لکھا ہو ا ہے اس تحریر کے ساتھ ساتھ اوپر کی طر ف پینٹنگز بنی ہو ئی ہیں یعنی ہر تصویر کے بارے میں تفصیل درج ہے ایک تصویر دیکھی جو نور کے سمندر کی عکا س ہے ، نیلی شعاعوں کا بہت بڑا سمندر ہے جو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے ۔شعاعوں کی اس قدر زیادتی ہے کہ دیکھ کر خوف آتا ہے۔سمندر بہت بڑی بڑی لہروں اور گہرے با دلوں کی صورت میں موجود ہے ۔جب میں دو سرا ورق پلٹتی ہوں تو ایک پینٹنگ ہے جس میں ایک نہا یت ہی گہرے ہلکے نیلے رنگ کا ایک بہت بڑا سمندر ہے اس کے بیچوں بیج ایک بہت با ریک مگر نیلگوں سفید روشنی کا راستہ ہے ۔ راستے کے دائیں طر ف ایک بہت بڑا درخت ہے راستے کے اختتام پر ایک بہت ہی نہا یت ہی شفیق اور معصوم بزرگ کھڑے ہیں ۔ ان کا لباس مر کر ی لا ئٹ جیسا ہے سمندر میں مر کر ی روشنی اس قدر ہے کہ میں دو با رہ دیکھنے کی جرات نہ کر سکی ۔لیکن ہمت کر کے دیکھا تو وہ بزرگ راستے کے اختتام پر استقبال کر نے کے لئے کھڑے ہیں ان پر ایک عجیب سی روشنی پڑ رہی ہے جو ان کے پیچھے دیوار میں سے آرہی ہے ۔ وہ اس دیوار کو نہیں دیکھ رہے ہیں یو ں محسوس ہو تا ہے کہ جیسے سمندر جو کہ بہت ہی گہرے نیلے با دلوں اور مر کری شعاعوں کا مجموعہ ہے  اس راستے کو ڈبو دے گا۔ اور پھر یوں ان بزرگ کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ سمندر صرف راستہ تک آتا ہے اور واپس چلا جا تا ہے ۔

میں نے جب یہ مشقیں شروع کیں ہیں نہ جا نے کیوں میرے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے ۔اس کے علاوہ چہرے پر بر دباری آگئی ہے اور اللہ تعالیٰ اس قدررحمٰن ورحیم نظر آتا ہے کہ اس کے قہر و جلا ل کا تصور بہت کم ہو گیا ہے ۔ جی چا ہتا ہے کہ بس خاموش رہوں اور اپنے خدا کا تصور کر تی رہوں میرے اندر سے آواز آتی ہے ‘’میری بندی ! میں تیرے پاس ہوں ، پر تو مجھ سے ابھی دور ہے ۔  “

فر شتے :

سانگھڑ سے جناب ممتاز علی لکھتے ہیں ک پہلے سبق پر عمل کے نتیجے میں مر تب ہو نے والی کیفیات پیش کر دہا ہوں ۔

رات کو مشق کی اور مشق کے بعد مر اقبہ کیا ۔ دوران مراقبہ میں نے دیکھا کہ میرا پو را وجود خربوزے کی کاشوں کی طر ح کھل گیا اور کچھ لوگ جو غالباً فر شتے تھے یا کو ئی اورمخلوق تھی ، میرے جسم کے اندر سے سیاہ رنگ کے سانپوں جیسی چیزیں نکال نکال کر پھینک رہے ہیں ۔

۱۵۔ جون : نور کے سمندر ڈوبنے کی مشق کر نے میں سخت مزاحمت پیش آرہی ہے محسوس یہ ہو تا ہے کہ مجھے جنات پر یشان کر رہے ہیں اور میر ے اندر گھس کر بیٹھ گئے ہیں ۔

۱۶۔ جون : نیم غنود گی کے عالم میں ایک مقام دیکھا جس کا رنگ سبز ہے اس کے اندر ایک نوجوان اور خوبصورت عورت ٹہل رہی ہے،۔ بس ایک لمحہ کی جھلک تھی اس کے بعد منظر نظروں سے غائب ہو گیا دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی کہ کچھ کامیاب ہو رہا ہوں ۔اب کیفیت یہ رہتی ہے کہ دن کے وقت جب آنکھیں بند کر تا ہوں تو اپنے آپ کو سمندر میں ڈوبا ہوا محسوس کر تا ہوں ۔جسم میں طا قت اور چستی اور بھر پور قوت ارادی محسوس کر رہا ہے ۔

۱۸۔جون : خواب میں خود کو ایک سبز رنگ کی دنیا میں دیکھا جہاں کی ہر چیز مکانات ، با غات مرداور عورتیں غر ض کہ اس دنیا کی سب چیزیں سبز ہے ۔

 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔