Topics
شاہد
محمود ، لا ہو ر ۔۔۔میں نے پر اسرار علوم کے موضوع پر مشرقی اور مغربی تقریباً
تمام مصنفین کی کتابین پڑھی ہیں ۔ان تمام مصنفین نے شمع بینی ، آئینہ بینی اور
دائرہ بینی کے متعلق لکھا ہے اور ا ن مشقوں سے جو نتا ئج مر تب ہو ئے ہیں ان نتا
ئج کے بارے میں بہت سے لوگوں کے حالات قلم بند کئے ہیں ۔طبیعات اور نفسیات کی رو
شنی میں ان دانشوروں نے علمی بحث بھی کی ہے ٹیلی پیتھی کے بارے میں جو تھیوری آپ
نے بیان کی ہے وہ بالکل منفرد اور الگ ہے۔میری دانست میں کسی بھی مصنف نے ٹیلی
پیتھی کے ضمن میں سانس کی مشقوں اور نور کے سمندر کا تذکر ہ نہیں کیا لیکن جہاں تک
ذہنی سکون کا تعلق ہے اس علم کو سیکھنے میں مسلمہ امر ہے جو شمع بینی اور دائرہ
بینی سے حاصل ہو جا تا ہے۔ کیا آپ اپنے قارئین کو یہ بتا نا پسند کر یں گے کہ
ٹیلی پیتھی میں سانس کی مشق اور مراقبہ نو ر کی اہمیت کیا ہے ؟
کائنات
بشمول انسان ہر لمحہ اور ہر آن متحرک ہے ۔کائنات کی حرکت سے قطع نظر اس مخلوق کی
زندگی کا :جو زی روح: سمجھی جاتی ہے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ
زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے جب تک سانس
کی آمدو شد جاری رہے گی ۔زندگی رواں دواں ہے اور جب سانس میں تعطل واقع ہو جا تا
ہے تومظاہراتی اعتبار سے زندگی ختم ہو جا تی ہے ۔سانس کے رخ متعین ہیں سانس
اندر جا تا ہے اور با ہر آتا ہے ۔
روحانی
نقطہ نظر سے سانس کا اندر جا نا انسان کو اس کی روح یا انر(INNER) سے
قریب کر دیتا ہے ،اور سانس کا با ہر آنا انسان کواس کی روح یا انر(INNER) عارضی طور پر دور کر دیتا ہے ۔
ہم
یہ بتاچکے ہیں کہ انسان رو شنیوں سے مر کب ہے اورا ن روشنیو ں کی بنیاد (BASE)اللہ کانور ہے ۔جس طرح سانس
کی آمدو رفت انسان کی زندگی ہے اسی طر ح خیالات کو بھی ہم زندگی کہتے ہیں۔بہ
الفاظ دیگر سانس خیالات کی زندگی کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اب اگر ہم زندگی کاتجر یہ کر
یں تو یہ انکشاف ہو تا ہے جس طر ح سانس دو رخ پر قائم ہے اس طر ح خیالات بھی دورخ
پر سفر کر تے ہیں خیالات کا ایک رخ اسفل رکھا گیا ہے ۔ اور دو سرا رخ وہ ہے جو
ہمیں اسفل سے دور کر کے اعلیٰ مقام میں لیجا تا ہے عرف عام میں اس کو خیالات کی پاکزگی یا خیالات میں پیچیدگی اور تاریکی کہا
جا تا ہے ۔ خیالات میں پا کیزگی دراصل ایک طر ز فکر ہے ۔ طر ز فکر اگر پا کیز ہ ہے
تو انسان سکون اور راحت کی زندگی بسر کر تاہے ۔سکون اور راحت انسان کے اندر ذہنی
یکسوئی پیدا کر تے ہیں ۔ اس کے برعکس تا
ریک طرز فکر انسان کو حزن و ملال اور رنج و آلام سے آشنا کرتی ہے۔ حزن و ملال ذہنی یکسوئی ختم کر کے انسان کو دماغی انتشار
میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
اسی
بات کو ہم دو سری طر ح بیان کر تے ہیں تمام آسمانی صحائف میں یہ بتا یا گیا ہے کہ
انسان کی اصل تخلیق ازل میں ہو ئی ہے ۔ اور پھر انسان( آدمی )نا فر ما نی کا مر
تکب ہو کر اس دنیامیں آیا ہے ۔ایسی دنیا میں جہاں ازل غیب ہے لیکن غیب سے اس
کاایک مخفی رشتہ قائم ہے ۔ ازل میں موجودگی کا تعلق انسان کی روح سے ہے اور دنیا
وی وجود ایسے حواس ہیں جو انسان کو روح سے دور کر دیتے ہیں۔جب ہم سانس اندر لیتے
ہیں تو ازل سے قریب ہوجا تے ہیں ۔ اور جب سانس با ہر نکالتے ہیں تو خود کو ازل سے
دور محسوس کر تے ہیں ۔یعنی سانس کا باہر آنا اس زندگی اور از ل کی زندگی کے
درمیان ایک پر دہ ہے ۔جب ہم سانس کو اندر رو کتے ہیں تو ہمارا رشتہ ازل سے قائم ہو
جا تا ہے۔ ٹیلی پیتھی کے اسباق میں سانس کی مشق کو ا س لئے شامل کیا گیا ہے تاکہ
انسان اپنی روح سے قریب ہو جا ئے ما ورائی علوم میں اس وقت تک صحیح معنوں میں
کامیابی ممکن نہیں ہے جب تک انسان خود اپنی روح سے قریب نہ ہو ۔
عام
طور پر ٹیلی پیتھی سیکھنے والے لوگوں کی طرز یہ ہو تی ہے کہ وہ اس علم سے دنیاوی
فائدے اٹھا ئیں ۔اور اپنے معمول کو متا ثر کر کے اس سے فا ئدہ حاصل کریں ۔چند
حضرات اس علم کو اس لئے بھی سیکھتے ہیں کہ وہ اس سے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا
چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنے صحت مندخیالات کسی مریض کے دما غ میں منتقل کر کے
اس مر یض کو بیماریوں سے نجات دلا دیں ۔اس علم کو سیکھنے والوں کو جو بھی طرز فکر
ہو تی ہے ان کا ذہن اس کے مطا بق عمل کر تا ہے۔
ذہنی
یکسوئی کے لئے مر اقبہ نور کی مشق ہم نے اس لئے تجویز کی ہے کہ ذہنی سکون
کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر طر ز فکر بھی پاکیزہ ہو جائے ۔پاکیزہ طرز ِ فکر میں انسان
رو ح سے قریب ہو جا تا ہے اوراس کے اندر ایسی فراست پیدا ہو جا تی ہے جس کو تصوف
نے فکرسلیم کہا ہے ۔
ہم
نے ٹیلی پیتھی کی پہلی مشق کے دو ران چند طلبہ کی کیفیات قلم بندکی ہیں ۔آپ نے
پڑھا ہے کہ ان حضرات کی طر ز فکر خود بخود انوار کی طر ف منتقل ہو گئی ہے۔اور جب
کو ئی بندہ فی الواقع انوار سے آشنا ہو جا تا ہے تو صرف نہ کہ اس کی اپنی زندگی
سنور جا تی ہے بلکہ وہ اللہ کی مخلوق کے لئے بھی تکلیفوں سے نجات کا ذریعہ بن جا
تا ہے۔
ہمیں
یقین ہے کہ ہمارے قارئین انشا اللہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ فکر سلیم حاصل کر لیں گے
اور اس فکر سلیم کے ساتھ ٹیلی پیتھی سیکھ کر دماغی کشماکش ، ذہنی انتشار اور مصائب
و آلام کی زندگی سے نجات حاصل کر کے اللہ کی مخلوق کی خدمت کا ذریعہ بنیں گے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔