Topics
رضوانہ
۔۔۔
سوال
: بقول آپ کے ٹیلی پیتھی جاننے والا اگر ہر زبان سمجھ سکتا ہے دوسروں کے خیالات
پڑھ سکتاہے تو ایسا کیسے ممکن ہے کیوں کہ ہمارا عام مشاہدہ یہ ہے کہ آدمی جب کو
ئی بات سوچتا ہے تو ا س کی سو چ کادائرہ ما دری زبان کے الفاظ میں محدود ہو تا ہے
مثلا ً یہ کہ ہم انگر یزی میں ایک مضمون لکھنا چا ہتے ہیں اور ہماری ما دری زبان
اردو ہے تو مضمون کا خاکہ یا مضمون کے اندر مفہوم جو ہم بیان کر نا چا ہتے ہیں وہ
ہمارے دما غ میں مادری زبان میں وارد ہو تا ہے اور ہم اس ما دری زبان کو انگر یز ی
الفاظ کا جامہ پہنا دیتے ہیں ۔
جواب
: سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر یا رو شنی
پر ہے ۔ جب ہر شئے شعاعوں یا لہروں کا مجمو عہ ہے تو ہم شعاعوں اور لہروں کو سمجھے
اور دیکھےبغیر یہ کیسے جا ن لیتے ہیں یہ درخت ہے ، یہ پتھر ہے یا یہ چیز پا نی ہے
۔ہم جب کو ئی پھول دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ پر پھول سے متعلق خوبصورتی ، خوشبو ،
فر حت وانبساط کا تا ثر قائم ہو تا ہے حالانکہ ابھی ہم نے نہ پھول کو چھوا ہے ، نہ
سونگھا ہے اسی طر ح جب ایک ایسے آدمی کا چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے جو طبعاً تخر
یب پسند ہے یا ہم سے مخا صمت رکھتا ہے تو اس کے خیالات سےہم متا ثر ہو تے ہیں اور ہماری طبیعت کے اوپر
اس کا رد عمل ہو تا ہے اس کے بر عکس کو ئی آدمی ہم سے دلی تعلق رکھتا ہے ۔ اس کو
دیکھ کرہماری طبیعت میں اس کے لئے محبت اور انسان شنا سی کے جذبات ابھرتے ہیں
حالانکہ ان دونوں آدمیوںمیں سے کسی نے نہ ہم سے کو ئی بات کی ہے اور نہ ہمیں کو
ئی نقصان یا نفع پہنچا یا ہے ۔
دنیا
میں ہزاروں زبا نیں بو لی جا تی ہیں لیکن جب پا نی کا تذکرہ ہو تا ہے تو آدمی اسے
پا نی سمجھتا ہے جس طر ح ایک اردو داں پا نی سمجھتا ہے ۔ اس طر ح دوسری زبا نیں بو
لنے والے جل ، آب ، واٹر ، ما ء وغیرہ کہتے ہیں لیکن پا نی پا نی ہے جب کو ئی
اردوداں کسی انگر یز کے سامنے درخت کہتا ہے تو اس کے ذہن میں درخت ہی آتا ہے یہ
الگ بات ہے کہ انگر یزاس کو TREE کہتا ہے ۔ دنیا کے
کسی بھی خطے پر جب ہم آگ کا تذکرہ کر یں گے تواس خطے پر بولی جا نے والی ما دری
زبان کچھ بھی ہو لوگ اسے آگ ہی سمجھیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ کو ئی چیز اپنی ما ہیئت
، خواص اور اپنے افعال سے پہچانی جا تی ہے ۔ نام کچھ بھی رکھا جا ئے ہر چیزکاقیام
لہر پر ہے ایسی لہر جس کو رو شنی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی
یہی ہے جس طرح پانی لہروں اور رو شنیوں کامجمو عہ ہے اسی طر ح خیالات بھی لہروں کے
اوپر رواں دواں ہیں۔ ہم جب کسی چیز کی طر ف متوجہ ہو جا تے ہیں تو ہمارے خیالات کے
اندر کام کر نے والی لہریں اس چیز میں منتقل ہو جا تی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم
جب کسی آدمی کی طرف متوجہ ہو کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم پیاسے ہیں تو دوسرا
آدمی اس بات کو سمجھ جا تا ہے حالانکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں پا نی پلا ؤ ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔