Topics
سوال
: یہ بات تو سب جا نتے ہیں کی زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے۔ سانس جا ری ہے تو
زندگی بر قرار ہے اور جب سانس کا سلسلہ ختم ہو جا تا ہے تو زندگی بھی راہ عدم
اختیار کر تی ہے ۔درخواست ہے کہ آپ ہم طلبا ء طلبات کو یہ بتا ئیں کہ ماورا ئی
علوم حاصل کر نے میں سانس کی مشقیں کیوں ضروری ہیں اور سانس کی روحانی حیثیت کیا
ہے ؟
جواب
: تخلیقی فا رمولوں پر غور کیا جا ئے اور اللہ کے بیان کر دہ قوانین میں تفکر کیا
جا ئے تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کا ئنات اور
کا ئنات کے اندر تمام مظاہرات کی تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے ۔ اس حقیقت کی روشنی میں سانس کے بھی دو رخ متعین ہیں ایک رخ یہ کہ
آدمی سانس اندر لیتا ہے ۔ دوسرا رخ یہ کہ سانس با ہر نکالتا ہے تصوف کی اصطلا ح
میں گہرائی میں سانسس لینا صعودی حرکت ہے
اور سانس کا با ہر آنا نزولی حرکت ہے ۔ صعود اس حرکت کا نام ہے جس حرکت میں تخلیق
کا ربط براہ راست خالق کا ئنات سے قائم ہے اور نزول اس حرکت کا نام ہے جس میں بندہ
ٹائم اسپیس(TIME SPACE) کا پابند ہے۔
جب
کچھ نہ تھا اللہ تھا ۔جب اللہ نے چاہا بشمول کائنات ہمیں تخلیق کر دیا تخلیق کی
بنیاد اللہ کا چاہنا ہے اللہ کا چا ہنا اللہ کا ذہن ہے مطلب یہ ہو ا کہ ہمارا اصل
وجود اللہ کے ذہین میں ہے قانون یہ ہے کہ جب تک شئے کی وابستگی اصل سے بر قرار نہ
رہے کو ئی شئے قائم نہیں رہ سکتی ۔ اس وابستگی کا قیام مظاہراتی خدوخال میں صعودی
حر کت سے قائم ہے ۔اس کے بر عکس ہمارا ایک جسمانی تشخص بھی ہے اس جسمانی اور مادی
تشخص کی بنا نزولی حرکت ہے ۔
پو
ری کائنات اور اس کے اندر تمام مظاہرات ہر لمحہ ہر آن ایک CIRCLE میں
سفر کر رہے ہیں اور کا ئنات میں ہر مظہر ایک دو سرے سے آشنا اور متعارف ہے ۔
تعارف کا یہ سلسلہ خیالات پر مبنی ہے سائنس نے آپس میں اس تبا دلہ خیال اور رشتہ
کو توانائی کانام دیا ہے سائنس کی رو سے کا ئنات کی کسی شئے کو خواہ وہ مر ئی ہو
یا غیر مرئی کلیتہً فنا نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف ڈائیوںمیں نقل مکا نی
کر کے توانائی بن جا تا ہے اور توانائی روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے ۔مکمل
موت کسی پر وارد نہیں ہو تی۔ تصوف میں اسی توانائی کو روح کا نام دیا گیا ہے ۔ روح کو جو
علم ودیعت کر دیا گیا ہے وہی خیالات ،تصورات اور احساسا ت بنتا ہے ۔ یہ خیالات
اورتصورا ت لہروںاور شعاعو ں کے دوش پر ہمہ وقت ۔ ہر لمحہ اور ہر آن مصروف عمل
رہتے ہیں ۔اگر ہمارا ذہن ان لہروں کو پڑھنے اور ان کو حرکت دینے پر قدرت حاصل کر
لے تو ہم کائنات کے تصویر خانوں میں خیالات کے ردوبدل سے وقوف حاصل کر کے اپنے
خیالات دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم سانس پر کنٹرول حاصل کر لیں
جو صعودی حر کت ہے ۔ سانس کا گہرائی میں جانا لا شعور ہے اور سانس کا گہرائی سے
مظاہراتی سطح پر آنا شعورہے ۔شعوری زندگی حرکت میں ہو تی ہے تو لا شعوری زندگی پر
دے میں چلی جا تی ہے ۔ اور لا شعوری زندگی میں شعوری حرکات مغلوب ہو جا تی ہیں ماورا
ئی علوم سے آشنا ہو نے کے لئے لا شعوری تحریکات سے با خبر ہو نا ضروری ہے ۔اور یہ
اس وقت ممکن ہے جب گہرائی میں سانس لینے پر اختیار حاصل ہو جا ئے اور ہمارے اندر
مر کزیت اور توجہ کی صلا حیتیں بر وئے کار آجا ئیں ۔یاد رکھئے ہمارے انر(INNER) میں نصب شدہ اینٹینا (ANTENNA)اسی
وقت کچھ نشر کر نے یا قبول کر نے کے قابل ہو تا ہے جب ذہن میں توجہ اور مرکزیت کی
صلا حیتیں وافر مقدار میں موجود ہوں ۔ان صلا حیتوں کا ذخیرہ اس وقت فعال اور متحرک
ہو تا ہے جب ہم اپنی تمام تر توجہ یکسوئی اور صلاحیتوں کے ساتھ صعودی حرکت میں ڈوب
جا ئیں ۔
ما
ورا ئی علوم سیکھنے کے لئے مضبوط اعصاب اور طا قتور دماغ کی ضرورت ہے ۔ اعصاب میں
لچک پیدا کر نے ، دماغ کو متحرک رکھنے اور قوت کارکر دگی بڑھا نے کے لئے سانس کی
مشقیں بے حد مفید اور کار آمد ہیں ۔ جب کو ئی مبتدی سانس کی مشقوں پر کنٹرول حاصل
کر لیتا ہے تو اس کے دماغ کے اندر با ریک تر ین ریشوں اور خلیوں (CALLS)کی حرکات اور عمل میں اضا فہ ہو تا ہے ۔
انر (INNER)میں سانس رو کنے سے دماغ کے خلیات (CALLS)چا رج ہو جا تے ہیں جو انسان کی خفیہ
صلاحیتوں کو بیدار ہو نے ، ابھر نے اورپھلنے پھولنے کے بہترین مواقع فراہم کر تے
ہیں ۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔